
یکساں نظام تعلیم
منگل 29 اپریل 2014

محمد ثقلین رضا
(جاری ہے)
یکساں نظام کے فوائد کی بات کی جائے تو ہمارے سامنے دنیا کے بڑے بڑے ممالک کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ آج کے معاشی دیو جاپان کی بات کریں تو وہاں کی ترقی کو ہم یکساں نظام تعلیم کا ثمر قرار دے سکتے ہیں۔جاپان کی بابت یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں سرکاری یا پرائیویٹ دونوں قسمی سکولوں میں ایک ہی جیسی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ امیر غریب، حاکم، عوام سبھی کے بچوں کیلئے ایک جیسی تعلیمی سہولیات میسر ہیں۔ ایسے ہی رویئے ہمیں دنیا کے دیگر ممالک میں نظر آتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا کوئی رویہ نظر نہیں آتا۔ ایک اور بنیادی نقطہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ قیام پاکستان سے نظام تعلیم کو عارضی بنیادوں پر چلایا جاتا رہا اس رویئے کے لازمی اور تادیر اثرات محسوس کئے جاتے رہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب جاپان نے عالمی جنگ میں تباہی و بربادی کے بعد سرنڈر کیا تو جاپانی قیادت کے سامنے کئی ایک شرائط رکھی گئیں جن میں سے ایک شرط اتحادی ممالک کی طرف سے یہ بھی سامنے آئی کہ جاپان میں وہی نظام تعلیم رائج کیا جائیگا جو ہم دیں گے اس پر جاپانی قیادت نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ ہم اس شرط کی بجائے اجتماعی خودکشی کو ترجیح دیں گے۔
مجبوراً اتحادی ممالک اس شرط سے پیچھے ہٹ گئے۔ اس کے بعد جاپان نے نہ تو فوج بنانے کی کوشش کی اور نہ ہی اس کے ذہن میں اس جنگ کے تباہی کے اثرات موجود تھے۔ جاپان کی قیادت نے ایک ایسے نظام تعلیم کی تربیت پر توجہ دی جس کی بدولت امیر غریب سب کیلئے یکساں مواقع میسر ہوں۔ آج کئی عشرے گزرنے کے بعد جب جاپان دنیا کی بڑی معاشی طاقت کے طور پر سامنے آ چکا ہے اس میں جہاں دیگر عوامل کار فرما تھے وہاں انکا اپنا نظام تعلیم بھی بنیاد بنا جس کی بدولت ہر طبقہ ہائے زندگی کو تعلیم کے یکساں مواقع ملے۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی طرف سے سرکاری سکولوں انگلش میڈیم کرنے کا اقدام حالات حاضرہ کے مطابق بہتر اقدام قرار دیاجاسکتاہے مگر دوسری سمت اگر دیکھاجائے تو ان سکولوں میں وہ بنیادی سہولیات میسر نہیں آئیں جو اس کی ضرورت تھیں جس کاخمیازہ یہ سامنے آیا کہ محض چند برس بعد ہی پرائمری سطح سے انگلش میڈیم ختم کرکے دوبارہ اردو میڈیم شروع کردیا گیا بلکہ بعض سکولوں میں ابھی تک انگلش میڈیم نظام جاری ہے گویا سرکار کی چھتری تلے بھی دوہرا نظام جاری ہے
اب اگردوہرے نظامت تعلیم کے مضمرات کا ذکر کیاجائے تو جیسا کہ پہلے عرض کرچکے ہیں کہ ملک میں پھیلے کئی طرح کے نظاموں کی وجہ سے کئی طرح کے طبقات پیداہورہے ہیں ‘ ایک ہی ملک کے تعلیمی اداروں ‘یونیورسٹی کانصاب یکساں نہ ہونے کی وجہ سے دو طرح کے روئیے جنم لے رہے ہیں ایک اعلیٰ طبقہ اوردوسرا پست ۔گوکہ موجودہ حکومت نے ا س بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کیلئے کوششیں کی ہیں تاہم اب ضرور ی ہوگیا ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کو یکساں نظام تعلیم کا پابند بنایاجائے یہاں یہ نقطہ توجہ کاطالب ہے کہ حکومت نظام ونصاب تعلیم کو اگر حالات اور ملکی ضروریات کی بناپر تبدیل کردے تو یقینا پرائیویٹ اور مہنگے تعلیمی اداروں کی ضرورت باقی نہیں رہے گی ۔دوسری بات کہ محض انگریزی کو ہی معیارتعلیم سمجھ لیاگیا ہے اورپوری قوم اندھادھند انگریزی کے جاری مقابلہ کیلئے دوڑ رہی ہے حالانکہ یہ بھی دوسری زبانوں جیسی ہے اگر اسے محض زبان سمجھ کرپڑھا لکھاجائے تو یقینا بے شمارمسائل ختم ہوجائیں گے۔ یقینا انگریزی دنیا سے رابطے کاذریعہ ضرور ہے لیکن یہ بھی عجیب انکشاف ہے کہ دنیا کے بعض بڑے بڑے اورترقی یافتہ ممالک کے باسی پوری طرح سے انگریزی سمجھ نہیں پاتے یا انہیں بولنے میں دشواری ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک انگریزی ترقی کانہیں رابطے کاذریعہ ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
محمد ثقلین رضا کے کالمز
-
سرکاری حج عمرے
جمعہ 31 مئی 2019
-
انصاف، حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں
جمعرات 27 دسمبر 2018
-
قبرپرست
جمعہ 31 اگست 2018
-
محنت کش ‘قلم کامزدور
جمعہ 2 مارچ 2018
-
باباجی بھی چلے گئے
اتوار 28 جنوری 2018
-
پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ اور سوشل میڈیا
بدھ 1 نومبر 2017
-
استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہئے
ہفتہ 7 اکتوبر 2017
-
سیاستدان برائے فروخت
منگل 22 اگست 2017
محمد ثقلین رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.