محنت کش ‘قلم کامزدور

جمعہ 2 مارچ 2018

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

برسوں بیشتر جب چند ایک نئے اخبارات میدان میں آچکے تھے ایسے میں مقامی سطح پر تیارہونیوالی کمپیوٹرآپریٹروں کی کھیپ کم پڑرہی تھی اور ایک آپریٹر بیک وقت دو یاتین مقامی اخبارات میں کام کرنے پرمجبورتھا ‘ایسے میں بہت سے اخبارات کے مالکان رات گئے تک ان آپریٹروں کے انتظار میں بیٹھے رہتے تھے ‘یہاں یہ وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ بھکر کے بے شمار کمپیوٹرآپریٹروں کی فہرست میں بہت بڑے بڑے نام ہم سے جڑے ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ انہیں کچھ نہ کچھ سکھانے میں ہمارا کردار ہے‘ خیر یہ ثانوی سی بات ہوگئی تاہم اس کا زیرنذر کالم سے گہرا تعلق ہے‘ خیر آپریٹروں کی قلت کے دوران کئی اخباری مالکان ایک دوسرے سے آپریٹر ادھار مانگتے رہے‘ بھکرٹائمز ان دنوں کالج روڈ کے ایک پرنٹنگ پریس سے چھپاکرتا تھا جس کے مالکان ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے تھے اور ان سے ہماری کئی عشروں کی یاد اللہ تھی‘ خیر ایک دن پرنٹنگ پریس سے متعلقہ لازمی امور کے لئے جاناہواتومعلوم ہوا کہ پریس کاکاریگر اوپری منزل پرواقع کمرے میں آرام کررہا ہے ‘ خیرصبح کاوقت تھا اور اخباری دنیا سے وابستہ لوگوں کے شب وروز سے واقف حضرات خوب جانتے ہونگے کہ اخباری دنیا سے منسلک لوگ رات دیر تک جاگتے اور صبح دیر تک سوتے رہتے ہیں‘ خیر اوپری منزل پر پہنچنے کے بعد جب مطلوبہ کمرے تک پہنچے تو ایک ہنستاکھلتا نوجوان بانہیں پھیلائے آن موجود ہوا ‘ چہرے پر چھوٹی داڑھی اور ہنستامسکراتاچہرہ‘ یہ اعجا زلطیف تھا‘ پوچھا کہ صاحب اتنی صبح یہاں کیاکررہے ہو‘ بولے ”ثقلین بھائی یہ میرا دفتر ہے آپ کو کئی دفعہ منت کی کہ ایک دفعہ میرے دفترکاچکرلگالو لیکن آپ کے پاس کہاں وقت ہے‘ خیر اعجاز لطیف ہاتھ پکڑے اپنے دفتر میں لے گیا‘ دوتین کمپیوٹر ترتیب سے پڑے تھے اورساتھ ایک درمیانے سائز کا میزپڑاتھا۔

(جاری ہے)

اعجاز لطیف نے خوشی خوشی گویااعلان کیا کہ ”ثقلین بھائی آپریٹروں کی قلت ہے‘ رات دیرتک آپریٹروں کا انتظار کرتے کرتے اکثر اخبار بھی نہیں چھپ پاتاتھا ایسے میں خود ہی یہ ذمہ داری اٹھانے کی ٹھانی ہے‘ بس اب رات گئے تک یہی کام کرتاہوں اورپھر اخبار مکمل کرکے پریس پرلے جاتاہوں جہاں کاریگر کے ہیپلر کے طور پرکام کرکے اپنا اخبار چھپواتاہوں ظاہر ہے کہ اتنے میں صبح تو ضرور ہوجاتی ہے
اس ملاقات کے کچھ ہی دنوں کے بعد دفتر آتے ہوئے شیوکرانے کاخیال آیا ابھی مشہور زمانہ ہیئرڈریسر کی دکان میں داخل ہوئے ہی تھے کہ پیچھے سے کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا‘ پھر وہی مسکراتا چہرہ یعنی اعجاز لطیف سامنے تھا اورپھر کھلکھلاتے ہوئے کہنے لگا ”اچھا اب راز سمجھاہوں کہ بھکرٹائمز والے اتنے فریش فریش کیوں نظرآتے ہیں“ دوران گپ شپ پوچھ لیا ”اعجاز بھائی رات کی اتنی مشقت کے باوجود علی الصبح یہاں کیوں ‘خیریت تو ہے ؟؟؟ کہنے لگا ”آپ کو ایک بات تو بتانا بھول گیا ‘پریس کاریگر چھوڑگیا ہے اور اس پرنٹنگ پریس پر صر ف میرا ہی اخبار چھپتاہے ‘ مالکان نے مجھ پر ہی ذمہ داری ڈال رکھی ہے میں اپنااخبار تیار کرکے خود ہی پلیٹ بناتا اور پھر چھاپتاہوں اور پھر اسے تقسیم کرنے کیلئے نکل پڑتاہوں اسی دوران دن کے دس گیارہ بج جاتے ہیں اس کے بعد سونے کیلئے گھر چلاجاتاہوں۔

ابھی ہم حیرانی کے اس سمندر میں ہی غرق تھے کہ وہ ہنستاہوا بولا”ثقلین بھائی آپ کی زندگی بھی جہدمسلسل میں گزری ہے آپ کوتوپتہ ہے کہ ایسی محنت کے بعد سونے کاکتنا مزہ آتاہے“ ہم صرف سرہلاکر رہ گئے لیکن جاتے جاتے اس کا کندھاتھپکتے ہوئے کہا کہ”واقعی محنت بڑارنگ لاتی ہے لیکن ایسی محنت ہم نے نہ دیکھی نہ سنی ہے “وہ مسکرادیا
برسوں بیت گئے لیکن اعجاز کی روٹین وہی رہی‘ دن بھر خبروں کی تلاش اورپھر خبروں کی کمی بیشی کے دوران مقامی سیاست سے لیکر تما م شعبہ جات کے حوالے سے تجزیہ لکھنا‘ ان کی پرو ف ریڈنگ سے لیکر سرخیاں بنانے تک اور پھر کاپی پیسٹنگ تک تمام امور اعجاز خو د انجام دیتا اورپھر جب اخبار تیار ہوجاتاتو نچلی منزل پرواقع پرنٹنگ پریس میں جاکر پلیٹیں خود تیارکرکے اخبار چھاپ کر مارکیٹ میں تقسیم کرنے میں کوئی ناغہ درپیش نہ آیا‘ نہ اعجاز کے چہرے پر کوئی شکن آئی نہ نمائندوں سے لیکر نیوزایجنٹوں تک کسی سے کوئی گلہ شکوہ‘ گلہ شکوہ کرتا بھی کیسے کیوں کہ وہ تو اخباری میدان کا آل راؤنڈر تھا اس نے کسی کے کندھے کا سہارا لینے کی بجائے کئی گھروں کیلئے خود سہارابننے کو ترجیح دی۔

گذشتہ برس اس کے بھائی کا انتقال ہوا تو ا س کے مسکراتے چہرے پر غم کے عمیق سائے ضرور دیکھے ‘ وفات کے بعد پہلی عید پر جب وہ والدہ سے ملنے گیاتو پھوٹ پھوٹ کر رودیا کہ وہ اپنی ماں کا سامناکیسے کریگاکہ جس سے اس کابیٹا موت کے بے رحم پنجوں نے چھین لیاتھا۔ لیکن اب ہم سوچ رہے ہیں کہ اس جہد مسلسل پریقین رکھنے والے عظیم صحافتی کارکن کی موت کے بعد ان کے ورثا پرکیابیت رہی ہوگی ‘ وہ خود تو چلاگیالیکن اس کے پیچھے کئی رونے والی آنکھیں موجود ہیں ‘ لیکن ہمیں اپنی مقامی صحافت پر ترس ضرور آتاہے کہ اخبارات کی بھیڑ لگی ہے لیکن صحافیوں کے تحفظ کاکوئی انتظام نہیں‘ کوئی صحافی کسی بڑی بیماری کا شکارہوجائے تو اس کے علاج معالجہ کیلئے پیسے تک نہیں ہوتے اور بیچارہ ایڑیاں رگڑ رگڑکر موت کو گلے لگالیتاہے‘ ہم قلم کے مزدورسسکتے سسکتے زندگی گزارتے اور ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ جاپہنچتے ہیں اور اسے کیا کہئے کہ اس کے باوجود سب سے زیادہ الزامات بھی اسی محنت کش مزدور طبقہ پر ہی لگتے ہیں ۔

الزام لگانے والے ذرا رات گئے ان اخباری دفاتر کا دورہ کرنے کی زحمت کرلیا کریں تو انہیں اندازہ ہوجائیگا کہ یہ زندگی کس قدر مشکل ہوتی ہے اور پھر لوگوں تک محض آٹھ دس روپے کااخبار پہنچانے والے خود کس قدرکٹھنائیوں سے گزرتے ہیں۔ اسی شب روز کی مسلسل محنت نے کئی اعجاز لطیف جیسے نوجوانوں کو نگل لیالیکن مقامی صحافت اپنے دامن پر لگے داغ نہیں دھوپائی ‘کیوں؟؟ کیا صحافی اور اخباری مالکان اتنے برے ہوتے ہیں؟؟ یقینا ایسا نہیں ‘ یہ صرف اس لئے ہے کہ الزام لگانے والے دراصل صحافتی آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر فوراًگلے پڑنے کو دوڑپڑتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :