قبرپرست

جمعہ 31 اگست 2018

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

پچھلے دنوں برادر علی حسنین چشتی کی محفل میں بیٹھے تھے ‘ اظہارخیال ہورہاتھا کہ ہم محسن کش لوگ ہیں‘ زندہ افراد کی قدر نہ جاننے والے لوگ‘ ہم کہ زندہ لوگوں کی بجائے ان کی قبروں/مزارات کو زیادہ عزت ‘توقیر دینے والے لوگ‘ ہم کہ زندگی میں تحقیر اوربعدازوصال توقیردینے والے لوگ‘ ہم کہ ظاہراً کھاتے پیتے اورسانس لینے والے لوگ لیکن ہم میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں‘ عزت کرنے اورکرانے کاحوصلہ نہیں ‘ کسی کی عزت برداشت نہیں ہوتی ‘ عزت کس کو کہتے ہیں ہم نہیں جانتے‘ ظاہر ی جاہ وحشم پر مرمٹنے والے ہم لوگ جن کی نظر میں دولت و حشمت ہی عزت و قار کی علامت ہے۔

ایسی ہی باتیں ایک اورمحفل میں ہورہی تھیں تو ہم نے بے شمارآنکھیں نمناک دیکھیں‘ آنکھوں سے برستا مینہ اس بات کی علامت تھا کہ ہمارے زندگی‘ زندہ رہنے کی ایک ہلکی سی رمق نظرآرہی ہے لیکن یقین کریں کہ یہ تذکرہ ختم ہوا تو پھر وہی قہقہے ‘ٹھٹھے․․․․․․ جوزندگی سے خالی ‘بالکل خالی برتن کی طرح ٹھٹھکاتے ضرور ہیں لیکن اندر سے خالی ․․․․․․․․․․․․ آئیے ذرادیکھتے ہیں کہ ہم نے کہا ں تک درست کہا․․․․․․․․․․․
علامہ شاہ احمدنورانی ‘جنہیں پرائیوں(یہ تخصیص ہم نہیں کررہے بلکہ بعض اپنوں کی عطا کردہ ہے) نے عزت بخشی اوراپنے․․․․․․․․․․․اپنوں نے کبھی کہا کہ ”نورانی بھی کوئی قائد ہے“ وہی لوگ حضرت  کی قل خوانی میں بڑے بڑے دعوے کرتے دکھائی دیئے مولانا نورانی وقت کے ولی‘ وقت کے امام ․․․․․․․․․بات صرف علامہ نورانی تک محدود نہیں وقت کے بے شمار امام‘ جید علما ‘ وقت کے حقیقی ہیرو ہماری نظروں میں وہ مقام حاصل نہ کرسکے جو ان کا حق بنتا تھا۔

(جاری ہے)

شہزادہ غوث الوریٰ ‘ نصیرملت ‘ پیرسیدنا غلام نصیرالدین نصیرگیلانی کے مقام‘ مرتبہ سے کون آگاہ نہیں‘ گدی نشین ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی بھی روایتی پیر بن کر محض دم درود تک خود کومحفوظ نہیں رکھا۔ آپ  نے پاکستان تو کجا دنیا کے کونے کونے میں گھوم پھر کر محض دین متین کا درس دیا‘ وہ درس کہ جسے ”کچھ ناپختہ “لوگ فراموش کربیٹھے‘ انہوں نے توحید کادرس دیاتو بے شمار ”فتوے“ سامنے آئے ‘رسالت پر اظہارخیال فرمایاتو بھی فتوے‘ باعث حیرت مقام بھی دیکھئے ایسے ایسے ناپختہ اذہان اظہارکرتے رہے تھے جنہیں معاشرہ تین میں شمار کرتا ہے اورنہ ہی تیرہ میں۔

وہی نصیرملت  آخری ایام میں طعن وتشنیع کانشانہ بنے تو وہی لوگ طنزیہ جملے اداکرتے پائے گئے جب آپ نے وصال فرمایاتو طعن وتشنیع کرنے والے اذہان بدل گئے‘ وہی نصیرملت وقت کے حقیقی امام بھی بن گئے‘ ولی بھی ۔ حالانکہ ان کاجو مقام تھا اورہے وہ نہ توکسی نے پہچانا اورنہ ہی پہچاننے کی کوشش کی۔․․․․ ․․․ ․․․․․․․․․․․․․․․
یہ باتیں یوں یادآجاتی ہیں کہ مزاجاً ہم لوگ ناقدر شناس واقع ہوئے ہیں۔

اپنے محسنوں کی کردار کشی پرخوش ہوتے وقت ہمارے ذہن میں یہ خیال تک موجودنہیں ہوتا ہے کہ ہم اپنے زوال پذیرضمیر بلکہ مردہ ضمیرکی خوشیاں منارہے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ کسی کے مرنے پرتو ماتم کیاجاتاہے ‘ آہ وزاری کی جاتی ہے اورہم ہیں کہ خوشیاں مناتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی ہم ایک ایسی قوم کاروپ دھارہے ہیں جو خداوندقدوس سے بھی شاکی رہتی ہے توپھر اس کے نیک اوربرگزیدہ لوگ کس کھاتے میں رہے۔


پچھلے دنوں ایک ایسی ہی محفل میں جانے کااتفاق ہوا بات چھڑی مزارات ‘ قبروں کی تو ایک صاحب کہنے لگے بڑا ہی سکون ملتاہے ایسے مقامات پر‘دل پرچھائی گرد دھل جاتی ہے‘ ہم نے بولنامناسب نہ جانا محض اتنا ہی کہا کہ آپ جن اللہ کے کامل ولیوں کا تذکرہ فرمارہے ہیں ان اصحاب کو اپنی زندگی میں ناقدری کا سامنا رہا ۔ دین متین کی خدمت اوراسلام کی روشنی دوسروں تک پھیلانیوالوں کا تذکرہ تو جاری رہے گا ذرا دیکھئے محسن پاکستان سے ہم نے کیا سلوک کیا‘ ایک افتخارچوہدری کی بحالی کیلئے ہم نے پورا پاکستان الٹ پلٹ دیا‘ہزاروں لوگوں کو سڑکوں پرلے آئے ‘دو سال تک کئی لوگوں کوزخمی کراناقبول کرلیا ‘ کیا محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس قابل بھی نہ تھے کہ ان کیلئے تحریک چلائی جاتی ‘ کیا اس کی وجہ محض اتنی تونہیں تھی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمیں کوئی ذاتی ‘سیاسی فائدہ نہیں پہنچاسکتے ہیں‘ نہ وہ چیف جسٹس ہیں کہ ان کے پاس ہمارے رکے ہوئے کیس موجودہوتے اورہم ان سے غرض ہوتی کہ وہ ہمارے رکے ہوئے کیسوں کارخ ہماری ہی طرف موڑ دیں گے۔

وہ تو محسن اس دھرتی کے ‘ اس ماں کے ‘ جسے ہمارے آباء نے خون دل دے کرسینچا تھا۔ وہ دھرتی جس کا ہم کھاتے توضرور ہیں لیکن اسی کوغرانا بھی ہمارا معمول بن چکا ہے۔ گویا ہم اپنے محسنوں کاکھاتے ہیں اورانہیں کو غراتے ہیں‘ بس خدا را اتنا تو بتائیے ہم میں اورجانوروں میں کیافرق باقی ہے؟ کیا انسان اشرف المخلوقات نہیں؟کیارب العزت نے اسے تمام جانوروں سے اعلیٰ وارفع مقام نہیں دیا؟ یقینا خالق کائنات نے اسے تمام مخلوقات سے افضل قرار دیاتھا مگر ہم اپنے محسنوں کی ناقدری‘ احسان فراموشی‘ مردہ ضمیری کے باعث وہ رتبہ کھوبیٹھے وہ مقام وہ مرتبہ ہم سے دور ہوگیا کہ جو ہماری فضلیت کاسبب تھا۔

وہ کسی عظیم شاعر نے فرمایاتھا
فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا
مگراس میں لگتی ہے محنت زیادہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :