استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہئے

ہفتہ 7 اکتوبر 2017

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

آج صبح ہماری بیٹی بتارہی تھی کہ انہوں نے گذشتہ روز اپنی سہیلی کے ساتھ مل کر ایک خوبصورت کارڈ تیار کیا ہے، یہ کارڈ وہ اپنی ٹیچرکو دے گی، دوران ”موبائل مطالعہ“ ہم نے ”ہوں ہاں“ میں جواب دیا ، صاحبزادی محترمہ سمجھ گئی کہ ہم نے انکی بات سنی ان سنی کردی ہے انہوں نے دوبارہ ہمیں جھنجھوڑتے ہوئے بتایا کہ ”آج ٹیچر ڈے ہے میں اپنی ٹیچر کیلئے خوبصورت کارڈ تیارکرکے لے جارہی ہوں“پہلے تو غصہ آیا کہ اتنی اچھی پوسٹ پر بحث میں مصروف تھے، پھر اچانک خیال آیا کہ بچے ستائش چاہتے ہیں سو ہم نے پہلی نظر میں ہی جانچ لیا کہ اپنی ٹیچر کوسلام پیش کرنے کیلئے رات بھربیچاری نے خوب محنت کی ہے ،چمکدارکاغذوں ، ٹیپ سے بنا کارڈ واقعی خوبصورتی کی مثال تھا۔

جب وہ سکول پہنچ کر اپنی ٹیچر کو دکھائے گی تو کیا ری ایکشن ہوگا؟ یہ تو خیر وہ واپس آکر بتانے والی ہے البتہ قابل فخر بات یہ ہے کہ بچے بھی جانتے ہیں کہ اساتذہ کا کردار ان کیلئے کتنااہم ہے۔

(جاری ہے)


دفتر پہنچتے پہنچتے اپنے بچپن ، لڑکپن اور پھرجوانی میں تعلیم کی سیڑھیوں کی بابت سوچتے رہے، ٹاٹ والے (بلکہ سردیوں میں یہ سہولت میسر تھی ) سکول میں پڑھائی سے لیکرآج کے سجے سجائے پرائیویٹ سکولوں کے تمام مدارج ذہن میں گڈ مڈ ہوتے رہے ، ہم نے سرکاری سکولوں اورکالج میں تعلیم حاصل کی بنچوں سے محروم سکول دیکھے ،اساتذہ کی محنتوں کے عینی شاہد ہیں، لیکن جونہی آج کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی طرف نظر پڑتی ہے تو یکسر مختلف ماحول سامنے آتا ہے۔

آج شکوہ کیاجاتا ہے کہ سرکاری سکولوں میں وہ کچھ نہیں پڑھایاجاتا جو نجی سکول پڑھارہے ہیں، ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تعلیمی نصاب میں مسلسل کی جانیوالی تبدیلیوں کامقصد ہی یہی تھا کہ پرائیویٹ سکولوں کے کاروبار کو وسعت دی جائے اور آج نصاب بنانے اورتبدیلیاں کرنے والے اپنے مقاصد میں کامیاب رہے ہیں،خیر نجی اورسرکاری سکولوں کی بحث سے ہٹ کر ایک بات پورے وثوق سے کہے دیتے ہیں کہ سرکاری سکولوں،خاص طورپر چھوٹے اضلاع کے اساتذہ کے ساتھ جو ظلم روا رکھے گئے ہیں وہ بذات خود شرمناک ہیں۔

ظاہراً پانچ اکتوبرکو دن اساتذہ کیلئے مخصوص ہے ان کی عزت کی یاد دلانے کیلئے، انہیں سلام ، ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے لیکن عملی طورپر اگر صوبائی حکومت کے بزرجمہروں کے اقدامات کاجائزہ لیاجائے تو شرم آتی ہے کہ استا د کو کیا سے کیابنادیاگیا ہے۔ استاد ایک تعلیم دینے والی شخصیت اب کئی دوسرے کے کاموں پر لگی ہوئی ہے، ہمارے سامنے حکومتی اقدامات ، احکامات کی طویل فہرست موجود ہے ، سوچ رہے کہ طرح طرح کے عجیب وغریب اقدامات جانے کن اذہان کاکمال ہیں، ایسے لوگ اور ایسے اذہان جنہیں شاید اندازہ نہیں ہوتا کہ استاد بھی انسان ہیں۔

سنئے، احکامات کے مطابق اڑھائی سے تین، ساڑھے تین سال کے بچے کو کچی کلاس میں داخل کیاجائے اورپھر اگلے سال امتحان لئے بغیر اگلی کلاس میں پروموٹ کیاجائے، ایک بچہ جو تھوڑا ہی عرصہ قبل ماں کی گود سے نکلا ہو اوراسے سکول لانا اورپھر اس کو بہلانااس کی صفائی کاخیال رکھنا بھی اساتذہ کی ذمہ دار ی ہے۔ پھر اگر موسمی شدت یا دیگر وجوہات کی بناپر بچہ چھٹی کرے تو ذمہ دار بیماری ، موسمی سختی نہیں بلکہ اساتذہ قرار پاتے ہیں۔

اب مزید یہ ستم ڈھادیاگیا کہ اساتذہ کیلئے چھٹی کی سہولت بھی کچی کلاس کی پچانوے فیصد حاضری سے مشروط کردی گئی ہے، حکومتی بزرجمہروں کا ایک اورکارنامہ بھی ملاحظہ ہوگرلز،بوائز سکولوں کیلئے احکامات جاری کئے گئے ہیں کہ خواتین مرد اساتذہ دوران اسمبلی بچوں کے ساتھ اپنی تصاویر کو وٹس ایپ گروپوں ( یہ حکومتی احکامات پر بنائے گئے ہیں) میں شیئر کریں، اب سوال یہ ہے کہ ان گروپوں میں مرد بھی ہیں اورخواتین بھی، یقینا یہ تکلیف دہ اقدام خواتین کی نجی زندگی کیلئے خطرے کاباعث بھی ہے، سوال یہ ہے کہ ایسی تجاویز کس کے کہنے پر دی گئیں انہیں احکامات کی شکل جس نے دی شاید اسے پتہ نہیں تھا کہ ان تجاویز کے کیا نتائج برآمدہونگے۔

مقامی افسران تعلیم سے شکایت کی جائے تو فرمایاجاتاہے کہ یہ تصاویرگروپ میں شیئرکرنے کامقصد اسمبلی میں اپنی موجودگی ظاہر کرنا ہے، خدا کے بندو جب تم لوگوں نے اساتذہ کو ایک ایسی مشین بناکررکھ دیا جس کاکام تعلیم دینے کے علاوہ اوربہت کچھ ہے تو پھر اس گھٹیا اقدام سے کیا اساتذہ کو تذلیل کرنے کی ضرورت باقی رہ گئی تھی؟ مزید سنئے اب سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو انگلش، اردو ریاضی یعنی تین مضامین کے سوالات پرمشتمل کتابچہ دیاجاتا ہے تاکہ وہ اچھی طرح سے یاد کرسکیں پھر مانیٹرنگ آفیسر ہرماہ آکر اپنے ٹیب کے ذریعے ہراستاد سے براہ راست وہی سوالات کرکے فوری صوبائی محکمہ کو ارسال کردیتا ہے، ٹھہرئیے ٹھہریئے مذید ڈرامے ملاحظہ ہوں، حکم نامہ جاری ہوا ہے کہ جو بچے سکول چھوڑکر کسی دوسرے سکول چلے گئے ہیں انہیں ہرصورت واپس لایاجائے بصورت دیگر کاروائی کاسامناکرناپڑسکتا ہے اب سوال یہ ہے کہ جو بچہ علاقہ چھوڑ کرچلاگیا یاوالدین نے اپنی حیثیت کے مطابق بچے کو کسی اے بی سی کٹیگری کے حامل نجی ادارہ میں داخل کرادیاتو اس میں اساتذہ کیوں کر قصور وار قرار دئیے جاسکتے ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے کئی عجیب وغریب اقدامات اور احکامات جاری کرنے والوں کے اپنے بچے بڑے اور اے بی کلاس کے نجی تعلیمی اداروں میں داخل ہیں۔

خواتین ومرد اساتذہ کا احتجاج بھی اسی بات پر ہے کہ انہیں تو مجبور کیاجاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولو ں میں پڑھائیں ،زیادہ سے زیادہ بچے سکولوں میں لائیں لیکن ان افسران کو کیوں کچھ نہیں کہاجاتاجنہیں اپنے زیرنگیں سرکاری سکولوں پر اعتبار نہیں۔
ہمیں صرف یہ کہنا ہے کہ اساتذہ کا دن منائیے، یہ شوق ضرور پوراکریں لیکن خدا را انہیں وہ عزت بھی دیں جو ان کاحق بنتاہے ، انہیں مشین یاربورٹ سمجھ کر احکامات کے بوجھ تلے لادنے کی بجائے زمینی حقائق کوتسلیم کرتے ہوئے ان سے وہ کام لیں جو ان کے شایان شان ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :