
اپنی جیت کیلئے دوسروں کو ہراناضروری ہے
پیر 8 مئی 2017

محمد ثقلین رضا
(جاری ہے)
ابھی چند ہی دن قبل معذور افراد کے قومی کھیلوں کے دوران مقابلہ دوڑ کیلئے بچے پوری طرح دوڑنے کوتیار تھے ،وسل ہوئی اور پھر سب بچے دوڑ پڑے تاہم اچانک ایک بچے کا پاؤں مڑا اور وہ نیچے گرگیا ، ہونا تو یہ چاہئے تھا (بلکہ سائیکی بھی یہی ہے ) کہ سارے بچے اس زمین پر گرے بچے کی پرواہ کئے بغیر دوڑتے ہی رہتے لیکن نارمل افراد کی طرح نہیں ہوا بلکہ سبھی بچے واپس آئے اور اس گرے ہوئے بچے کو اٹھایا اور پھر سبھی دوڑتے ہوئے اختتامی لائن تک پہنچ گئے، یہ وہ موقع تھا کہ سٹیڈیم میں موجود سبھی افراد نے نمناک آنکھوں کے ساتھ کھڑے ہوکر ان معذور بچوں کے جذبے کو سلام پیش کیا۔
اسی مائنڈ سیٹ کو لیکر آگے بڑھتے ہیں، کلاس روم میں استاد نے بلیک بورڈ پر ایک لائن کھینچی اور پھر طلبہ سے مخاطب ہوکر کہا کہ ” کوئی طالبعلم ایسا ہے کہ جو اس لکیر کو مٹائے یا چھوئے بنا چھوٹاکردے“ سبھی طالبعلم ذہن لڑانے کے باوجود ناکام رہے، کافی دیر گزرگئی لیکن کسی جانب سے اس کا جواب سامنے نہ آنے پر مذکورہ ٹیچر نے اسی لکیر کے مقابل ایک بڑی لکیر کھینچی اور طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے پہلی لائن کو چھوئے اورمٹائے بغیر چھوٹاکردیا ہے وہ یوں کہ اس کے مقابل اس سے بڑی لائن کھینچ دی اس طرح پہلے والی لائن یا لکیر چھوٹی ہوگئی۔
صاحبو! اگر معاشرہ میں گھوم پھر کردیکھیں تو آپ کے سامنے ایک آدھ نہیں بلکہ ہزاروں ایسی مثالیں سامنے آئیں گی کہ لوگ اپنی کامیابی کیلئے اس حد تک کوشش کرتے ہیں کہ انہیں دوسروں کی عزت نفس تک کاخیال نہیں رہتا ۔بلکہ بعض افراد کی سائیکی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی کامیابی سے زیادہ دوسروں کی ناکامی پربھرپور توجہ مرکوز کرتے ہوئے انہیں گرانے میں لگے رہتے ہیں۔ حالانکہ اگر اپنی کامیابی پر ہی توجہ رکھی جائے تو ہوسکتا ہے کہ اس کی بدولت کئی دوسروں کو بھی کامیابی میسر آسکے۔
سیاست کا یہاں اس لئے بھی ذکر نہیں کرینگے کہ یہ شعبہ غلاظت کا پہاڑ بن چکا ہے جسے ذرا سا کھولنے پر بدبو کے بھبھوکے اڑکر ذہن وجسم کو آلودہ کردیتے ہیں، دوسرے ممالک کو چھوڑئیے ہمارے ہاں سیاست نام ہی منفی ذہنیت ،گھٹیاالزام تراشی ، دوسروں کی عزت نفس سے کھیلاجاتاہے شاید منفی ذہن کے حامل افراد کا خیال ہوتاہے کہ دوسروں کی عزت نفس کو کچل کر وہ کامیاب اوردوسرے ناکام ہوجائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا وقتی کامیابی تو انہیں مل جاتی ہے لیکن غلاظت کا ایک پہاڑ ان کے دامن سے جڑجاتاہے اورپھر زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتا۔
ہم نے ایک بار اپنے نہایت ہی قابل احترام پروفیسر منیر خان بلوچ سے پوچھاتھا کہ ذہن کیسے مثبت ہوسکتاہے؟ جواب میں انہوں نے اپنی مخصوص پروقار مسکراہٹ کے ساتھ کہاتھا کہ ” جس دن آپ نے نصف بھرے گلا س کو آدھا خالی سمجھناچھوڑدیا اور یہ سوچ لیا کہ گلاس آدھا بھرا ہوا ہے اسی دن سے ذہن مثبت ہوتا چلاجائیگا ۔ نیز ہرنظر آنیوالی شئے کے بارے فوری فیصلہ صادرکرنے کی بجائے اس کے پس منظر میں جھانک کر اصل حقیقت کو جاننا ہوگا “ پروفیسر صاحب تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر بولے ” ہمارے معاشرہ میں برائیاں اس لئے بھی زیادہ ہیں کہ ہم میں سے ہرایک شخص جج کا کردار اداکرنے کوترجیح دیتا ہے وہ دوسروں کی سنے بغیر فیصلہ کرنے کو ترجیح دیتاہے لیکن اپنی ذات سے متعلق اسے یہ بات برداشت نہیں ہوتی کہ کوئی اس کے بارے فیصلہ کرے، جب تک عام انسان بن کر نہیں سوچیں گے اس وقت تک معاشرہ میں یونہی بے ترتیبی اوربے سکونی رہے گی“
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد ثقلین رضا کے کالمز
-
سرکاری حج عمرے
جمعہ 31 مئی 2019
-
انصاف، حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں
جمعرات 27 دسمبر 2018
-
قبرپرست
جمعہ 31 اگست 2018
-
محنت کش ‘قلم کامزدور
جمعہ 2 مارچ 2018
-
باباجی بھی چلے گئے
اتوار 28 جنوری 2018
-
پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ اور سوشل میڈیا
بدھ 1 نومبر 2017
-
استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہئے
ہفتہ 7 اکتوبر 2017
-
سیاستدان برائے فروخت
منگل 22 اگست 2017
محمد ثقلین رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.