عیدی

منگل 26 مئی 2020

Muhammad Usama Alam

محمد اُسامہ عالم

عید کے اصطلاحی معنی ہوتے ہیں ''لوٹ کر آنے والی'' بچپن ہی سے مجھے عید الفطر کے لوٹ کر آنے کا انتظار رہتا تھا کیونکہ عید پر عیدی بٹورنا میرا محبوب مشغلہ تھا۔ بچپن میں شعوری زندگی میں قدم رکھتے ہی عید وہ پہلا موقع تھا جب کچھ رقم ہاتھ آتی اور یہ سمجھ میں آیا کہ اس سے کچھ قابلِ ذکر چیز خریدی جاسکتی ہے اور شاید عید ہی وہ پہلا موقع تھا جب بچپن جیسے معصوم دور سے ہی مال کی محبت نے دل میں گھر بنا لیا۔


 میں جس گھر سے تعلق رکھتا تھا وہاں بنیادی ضروریات سے کہیں زیادہ مجھے پہلے ہی سے میسر تھا چناچہ عیدی نے پیسے کی طاقت کا بت دل میں آباد کیا اور میں نے اس پیمانے پر رشتوں کو پرکھنا شروع کیا۔ چنانچہ میری خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ عیدی جمع کروں، وہ رشتہ دار مجھے ہر دل عزیز تھے جو عیدی میں قابل ذکر رقم دیا کرتے تھے اور اس بات سے قطع نظر کے بعض رشتہ داروں کی مالی حالت کیسی ہے۔

(جاری ہے)

 مجھے وہ لوگ ایک آنکھ نہ بھاتے تھے جو عیدی یا تو دیتے نہیں تھے یا برائے نام دیتے تھے۔ عید کے دن مجھے ان رشتہ داروں کے گھر جانے میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی تھی۔عید کے پہلے دن سے ہی عیدی کو سنبھال کرنئے بٹوے میں رکھنا، اسے بار بار دیکھنا اور گنتے رہنا میرا محبوب مشغلہ تھا۔ میں اور میرے دوست آپس میں موازنہ کیا کرتے تھے کہ کس نے زیادہ عیدی جمع کرلی، جو جیت جاتا وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا اور جس کے پاس کم ہوتی وہ بیچارہ اپنا سامنہ لے کر رہ جاتا۔

 بعض اوقات وہ بتاتا کہ مان لیا کہ اس وقت میرے پاس کم رقم جمع ہوئی ہے لیکن بے فکر رہو کل میں نے نانی کے گھر جانا ہے اور وہاں سے مجھے اتنی عیدی ملنے کی امید ہے کہ میں تم سب کو پیچھے چھوڑدوں گا۔عید کے اختتام پر یہ موازنہ اس سال کے منطقی انجام تک پہنچ جاتا۔
میرے بعض رشتہ دار ایسے بھی تھے کہ ان کی ایک عیدی دوسرے کئی رشتہ داروں کی عیدیوں کے مجموعہ سے بھی زیادہ ہوتی تھی، ان کی میں دل سے عزت کرتا تھا لیکن اگر کسی رشتہ دار کے بارے میں مجھے یہ علم ہوجاتا کہ انہوں نے دوسرے کسی بچے کو مجھ سے زیادہ عیدی دی ہے تو یہ عزت یقینی طور پر گھٹ جایا کرتی تھی۔

بعض رشتہ دار ایسے بھی تھے جو رقم تو نہیں لیکن تحفہ دیا کرتے تھے، مجھے اس میں بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی کیونکہ ساتھیوں سے موازنہ رقم کا ہونا تھا سامان کا نہیں۔
عید ہی وہ موقع تھی جب مجھے حسد اور جلن جیسی بیماریاں لاحق ہوئیں۔ یہ اس وقت ہوتا جب میرے دوستوں کے پاس مجھ سے زیادہ رقم جمع ہوجاتی۔جب میں تھوڑا بڑا ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ یہ بیماری صرف بچوں میں ہی نہیں بلکہ بڑوں میں بھی ہے، ہاں اس کی نوعیت تھوڑی مختلف ہے۔

بڑے اپنے بچوں کو یہ سکھاتے کہ آ پ نے عیدی مانگنی نہیں ہے، کوئی دے تو لے لیں، دوسری طرف بڑے خود عیدی مانگتے نظر آئے، نائی، پولیس والے، رکشہ والے اور چوکیدار، یہ سارے عید پر عیدی مانگتے۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ یہ کہتے کہ آپ اپنی خوشی سے جو دینا چاہیں دے دیں جبکہ دوسری طرف نہ دینے پر یا کم دینے پر یہ سارے خفا بھی ہوجاتے۔
جب میں تھوڑا اور بڑا ہوا تو مجھے یہ مرض پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہوا نظر آیا، رشتہ لگنے کے بعد ہر عید پر لڑکے اور لڑکی والوں پر عیدی بھیجنا ہمارے معاشرے میں فرض کا درجہ رکھتا ہے۔

عیدی نہ بھیجنا تو بہت دور کی بات اگر بالفرض آپ نے لوازمات پورے نہیں رکھے تو یہ آپ کو گھٹیا ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔ مال کی محبت اور رسم و رواج کی اندھی تقلید ہی کا ثمر ہے کہ عید جیسے خوشی کے موقع حسد، جلن، کینہ اور غیبت جیسے امراض دلوں میں پہنچتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :