نئے لکھنے والوں کے لیے چیلنجز کیا ہیں؟

ہفتہ 19 جون 2021

Muhammad Usman Ashraf

محمد عثمان اشرف

 جب کوئی سنجیدہ قاری کتابوں کے ساتھ مناسب وقت گزار لیتا ہے تو کچھ عرصے کے بعد  اس کی تجزیہ کرنے کی صلاحیت بھی پروان چڑھنے لگتی ہے-   اگر وہ اپنے ایریا کا انتخاب  کر لے تو پھر وہ آہستہ آہستہ صاحب الرائے بھی بن جاتا ہے- وقت کے ساتھ ساتھ ارتکاز کی صلاحیت بھی بہتر ہوتی جاتی ہے اور اس کا اپنے موضوع پر وجدان بھی ٹھیک ٹھاک طریقے سے کام کرتا ہے- لیکن اس  کے لئے شرط یہ ہے کہ اس اپنے موضوع کے ساتھ سنجیدہ ہو- اچھا پڑھنے والا کبھی نہ کبھی لکھنے کی طرف مائل ضرور ہوتا ہے- کچھ لوگ ریسرچ کی روشنی میں لکھتے ہیں - لکھے گئے موضوع پر وہ اپنی ذاتی رائے کا اظہار کم ہی کرتے ہیں اور ریسرچ کی روشنی میں ہی دلائل دیتے ہیں-  کچھ لکھنے والے اپنے وجدان کی روشنی میں لکھتے ہیں- بعض صورتوں میں نتائج لکھنے والے کی سوچ کے مطابق ظاہر ہوتے ہیں- بعض صورتوں میں نتائج ان کے لکھے گئے مواد کے برعکس ہوتے ہیں-  بہرحال لکھنے والا انسان ہی ہوتا ہے وہ انسانی سوچ کے مطابق ہی اپنا تجزیہ پیش کرتا ہے-  لکھے گئے مواد کے غلط ہونے کا بھی اتنے ہی امکان ہوتے ہیں جتنے ٹھیک  ہونے کے-  آجکل لکھنے کے حوالے سے کافی پلیٹ فارمز دستیاب ہیں-  سوشل میڈیا کے اس دور میں تحریر لکھ کر دوسروں تک پہنچانا اب کو اتنا مشکل کام نہیں رہا-  ممتاز مفتی تو ہر ملاقاتی کو لکھنے کا مشورہ دیتے تھے - بلکہ یہ لفظ کہ  "لکھ یار" ان کی زندگی کی باقاعدہ تحریک بن گیا تھا- ہمارے بہت ہی پیارے اور قومی اخبار کے کالم نگار' شاعر' ادیب  عتیق انور راجہ صاحب بہت سے لوگوں کو لکھنے کی جانب راغب کر چکے ہیں- ان میں بندہ ناچیز بھی شامل ہے- سرِدست نئے لکھنے والوں کے لئے کچھ باتیں عرض کرنا چاہوں گا-  پہلی چیز موضوع کا انتخاب ہے- یہ  آپ کی چوائس ہے کہ آپ نے کس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے- اخبارات میں زیادہ تر کالم سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں-
حالانکہ دنیا میں ان گنت موضوعات ہیں-  مذہب، سائنس، معاشیات، سپورٹس، سوشل سائنسز  وغیرہ وغیرہ-  اخبارات میں بھی  اکادکا  کالم سیاسی نوعیت سے ہٹ کر ہوتے ہیں- اس موضوع کا انتخاب کریں جو آپ کے دل کے قریب ہو- دوسری چیز اچھا پڑھنا ہے- آپ جب تک اپنے موضوع پر مناسب مطالعہ نہیں کرتے آپ کی تحریر میں جان نہیں آتی- پڑھنے والے کو اس چیز کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ لکھنے والے نے اپنے موضوع سے  انصاف کیا ہے یا نہیں-  تیسری چیز لکھے ہوئے کو آسان بنانا ہے-   عتیق انور راجہ صاحب فرماتے ہیں کہ "پڑھو اوکھا لکھو سوکھا" -  یعنی جب آپ پڑھیں  تو مشکل سے مشکل لکھنے والوں کو بھی پڑھیں- لیکن جب آپ لکھیں تو اس کو آسان سے آسان لکھیں-    رچرڈ فائن مین نوبل انعام یافتہ فزکس دان ہے-فائن مین کہتا ہے کہ  کسی موضوع پر آپ کو گرفت ہے یا نہیں- اس بات کا اندازہ اس چیز سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ اپنی بات کو سات سال کے بچے کو سمجھا سکیں-  یعنی آپ اپنے ٹاپک کو سات سال کے بچے کو سمجھا سکیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اپنے ٹاپک پر عبور حاصل ھے-  ویسے بھی برٹنڈرسل جیسا فلاسفر بھی یہ کہتا تھا کہ مجھے پچاس سال لگ گئے اس کام کو سیکھنے میں کہ آسان کیسے لکھنا ھے- چوتھی چیز مختصر لکھنا ہے- اگر آپ ناول لکھ رہے ہیں تو اور بات ہے لیکن  عموماً قاری لمبی تحریروں سے اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں-  مختصر تحریر  قاری کو جلد اپنے حصار میں لے لیتی ہیں- ژاں پال سارتر  سے کسی نے کہا تھا کہ آپ کی کتاب Being and nothingness ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے-  اس کتاب کو  کسی اور لکھنے والے نے سو صفحوں میں بیان کیا ہے-  سارتر نے مسکرا کر جواب دیا'  جب میں نے اس کتاب کو لکھا تھا تو میری عمر 30 سال تھی آج میں 70 سال کا ہوں اگر میں آج اس کتاب کو لکھتا تو سو صفحوں میں ہی لکھتا- ایک اور واقعہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا-  آج سے پچاس برس قبل نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے صفحہ کے ساتھ ایک اور صفحہ کا اضافہ کیا اس صفحہ کو Opposite the editorial کا نام دیا-  اس صفحہ پر مشہور دانشوروں اور ادیبوں کو لکھنے کی دعوت دی جاتی تھی- اس صفحہ کا مقصد ادارتی صفحہ کی توسیع تھا-لیکن اس میں لکھنے کی  کڑی شرط اختصار تھی- تحریر 400 سے 1200 الفاظ کی حد کے اندر ہونی چاہیے تھی-دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اخبار نے نوم چومسکی جیسے دانشور کو لکھنے کی دعوت دی تو اس نے  یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ میں اپنے خیالات کا اظہار اتنے مختصر الفاظ میں نہیں کر سکتا-  مختصر اور آسان لکھنا نئے لکھنے والوں کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں- ویسے بھی جب کوئی دانشور،  ادیب سادھو اور صوفی بن جاتا ہے تو پھر وہ عوامی بولتا ہے- اس کی تحریر خواص میں ہی نہیں عام میں بھی مقبول ہو جاتی ہے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :