ڈگری ہنر اور بڑے دماغ

ہفتہ 31 جولائی 2021

Muhammad Usman Ashraf

محمد عثمان اشرف

جیف بیزوز نے  1994ء میں ایمازون کی بنیاد رکھی- یہ آن لائن کاروباری ماڈل تھا- شروع میں کمپنی نے صرف کتابوں سے یہ کام  شروع  کیا-  آپ گھر بیٹھے بیٹھے لیپ ٹاپ یا کسی دوسری ڈیوائس سے کتاب کو انٹرنیٹ پر پسند کریں- کتاب بذریعہ پارسل آپ تک پہنچ جائے گی-  آئیڈیا
 نیا تھا لہذا یہ کاروبار چلنے لگا ویسے بھی فرسٹ ورلڈ  میں لوگ زیادہ مصروف ہوتے ہیں-  آہستہ آہستہ اس نے الیکٹرونکس اور دوسری چیزوں کو بھی کاروبار میں شامل کیا- یہ کاروبار چل نکلا- کاروبار کی شکل اب پوری دنیا میں  وبائی صورتحال اختیار کر چکی ہے-  ایمازون بلین ڈالر انڈسٹری ہے- یہ امریکا میں بگ فائیو کمپنیز میں شامل ہے- پاکستانیوں کو اب یہ سہولت حاصل ہو گئی ہے کہ وہ بھی اپنا کاروبار ایمازون پر کر سکتے  ہیں- چند ایک لوگ باہر سے اس کاروبار کو سیکھ کر آئے ہیں-انہوں نے پاکستان میں اس بزنس ماڈل کی پروموشن کا بیڑا اٹھا رکھا ہے-  یہ لوگ پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں- یہ لوگ نوجوانوں کو آن لائن کاروبار کے گر سکھا رہے ہیں- یہ لوگ یونیورسٹیز، سکول، کالجز میں جا جا کر اس پروگرام کی تشہیر کر رہے ہیں- ان حضرات کا مقصد یہ ہے کہ طالب علموں کو دوران تعلیم یہ کورسز سیکھنے چاہیے-تاکہ وہ تعلیم کے دوران کچھ سکلز بھی سیکھ سکیں اور پیسے  کما سکیں- یقیناً دنیا کے بڑے ممالک میں اس طرح ہوتا ہے کہ دوران تعلیم طالب علم کوئی چھوٹا موٹا ہنر سیکھ لیتے ہیں-  مثلا انجیلا مرکل جرمن کی جانی مانی شخصیت ہیں- انہوں نے زمانہ طالب علمی میں پڑھائی کے دوران ہیئر ڈریسنگ کا کام سیکھا تھا-  پاکستان میں بھیڑ چال کا چلن کافی حد تک کام ہے لوگ خواہ مخواہ دوسروں سے متاثر ہو کر زندگی کے بڑے بڑے فیصلے کر جاتے ہیں-  میں جب بھی کسی بزنس گروپ کے لوگوں کو ٹریننگ دینے جاتا ہوں تو لوگوں کا عموماً یہ سوال ہوتا ہے کہ کوئی ایسا کاروبار بتائیں-جس کی مارکیٹ میں کافی ڈیمانڈ ہو- تاکہ وہ تھوڑے دنوں میں پیسے کما سکیں- میں چونکہ پرسنل ڈویلپمنٹ کا ٹرینر ہوں- میرا کاروبار  کے متعلق علم نہ ہونے کے برابر ہے-میں لوگوں سے معذرت   سے کہتا ہوں، آپ کسی سے کیوں پوچھ رہے ہیں کہ آپ کو کون سا کاروبار کرنا چاہیے- جس کام میں آپ کی مہارت ہے آپ وہ کاروبار کیوں نہیں کرتے-  آن لائن کاروبار ضرور سیکھیں اور سکھائیں لیکن یونیورسٹیز میں مناسب کاؤنسلنگ کا کوئی انتظام نہیں ہے- ناں ہی طالب علموں کی سکلز کو پہچاننے کا کوئی معقول بندوبست ہے- میڈیا کی یلغار سے کوئی محفوظ نہیں- موٹیویشنل اسپیکنگ کے کچھ بڑے نام ان آن لائن کاروبار سکھانے والوں کے ساتھ مل کر کالجز یونیورسٹیز کے طالب علموں کے ذہن خراب کر رہے ہیں- پاکستان جیسے  ملک میں  جہاں دو کروڑ بچہ سکولوں سے باہر ہے-اس جیسے  ملک میں کسی کا یونیورسٹی پہنچ جانا معجزے سے کم نہیں- ماں باپ کے اور قدرت کے کسی طالب علم کے یونیورسٹی پہنچنے تک کروڑوں روپے لگ چکے ہوتے ہیں-   طالب علم پہلے ہی مخمصے کا شکار ہیں-اوپر سے یہ آن لائن کورسز والے ہر طرف سے  یلغار کر رہے ہیں- ڈگری کا کیا فائدہ اور سیکھیں، بیچیں اور پیسے کمائیں- آپ ڈگری میں کیوں اتنا وقت  ضائع کریں-  پاکستان میں ایسے لوگ صرف بیس ہزار ہیں-جو-پی-ایچ-ڈی ہیں- امریکہ میں 25سے 34 سال تک کی عمر کے پچاس فیصد لوگوں کے پاس گریجویشن کی ڈگریاں ہیں-پاکستان میں یہ نمبر صرف11 فیصد ہے - پاکستان میں تین ملین سے زائد گریجوایٹ نہیں ہیں-  یہ کل آبادی کا 1.3 فیصد بنتے ہیں-  جو کہ بہت ہی کم نمبر ہے- ایسی مخدوش صورتحال میں جو لوگ یونیورسٹی پہنچ چکے ہیں ان کا ذہن خراب کرنا کسی حماقت سے کم نہیں- کتنے نوبل پرائز ونر ہیں جن کے پاس کوئی ڈگری نہیں- امریکہ میں ایک سروے ہوا ہے- جس میں بڑے بڑے لیڈر  ہر فیلڈ سے لیے گئے ان کی تعداد آٹھ ہزار تھی-ان میں سے 96 فیصد کے پاس کوئی نہ کوئی ڈگری  ضرور تھی- کیونکہ میں کام چوری کرنی ہے- ہم جب بھی مثال لیں گے ان 6 فیصد میں سے لیں گے- خالانکہ exceptions دنیا میں ہر جگہ موجود ہوتی ہیں- امریکہ اور یورپ میں ڈگری ہولڈرز 21 ہزار ڈالر ان لوگوں سے زیادہ کماتے ہیں-جن کے پاس کوئی ڈگری نہیں ہوتی- کاؤنسلنگ کا اسکولز،کالجز، یونیورسٹیز میں پراپر انتظام ہونا چاہیے-طالب علم اگر ایوری صلاحیتوں کا مالک ہے تو اس کو کچھ اور کرنا چاہیے اگر طالب علم creative ہے خدا کی طرف سے اسے کچھ بہتر ودیعت کیا گیا ہے تو اس کو بڑے کاموں جیسے،سائنس، فلسفے ریاضی، ٹیکنالوجی میں کچھ نیا دریافت کرنا چاہیے- انسانیت کو آگے لے کر چلنا چاہیے- پچھلے دنوں گوجرانوالہ میں اسکولز کے ایک بڑے گروپ نے کالج کی نئی برانچ لانچ  کی ہے- کالج نے رائٹر کلب گوجرانوالہ کو کالج کے دورے کی دعوت دی- راقم الحروف بھی اس وفد میں شامل تھا-بتایا گیا کہ ہر طالب علم کو لازمی بنیادوں پر آن لائن کاروبار کرنا سکھایا جائے گا- میرے نزدیک اس طرح کی تحریک کے بارے میں یونیورسٹیز اور کالجز کو بیٹھ کر سنجیدگی سے سوچنا چاہیئے- یہ نہ ہو کہ آن لائن کاروبار کروانے کے چکر میں آپ سوسائٹی کا کوئی سائنسدان ضائع کر بیٹھیں- سوسائٹی کسی دانشور،تھنکر،فلاسفر سے محروم ہو جائے- یا کسی بڑے دماغ سے یہ معاشرہ ہاتھ دھو بیٹھے- کیونکہ یہی لوگ ملک اور معاشرے کو آگے لے کر چلتے ہیں- یہاں پر مناسب کاؤنسلنگ کی شدید ضرورت ہے- ٹرینٹی کالج نے اب تک 30 سے زائد نوبل انعام یافتہ لوگ پیدا کیے ہیں-  ان جیسے لوگوں کی وجہ سے ٹرینٹی کالج اپنے آپ پر فخر کرتا ہے- آکسفورڈ،کیمبرج، آکسفورڈ اس لیے عظیم  ادارے ہیں کہ ان اداروں نے عظیم دماغ پیدا کیے ہیں- وہ لوگ پیدا کئے جو انسانیت کو ایک دو قدم آگے لے کر گئے- ہماری یونیورسٹیز نے اب یہ فیصلہ کرنا ہے-کہ کوئی بڑا دماغ بھی پیدا  کرنا ہےیا صرف فری لانسرز، آن لائن کاروبار کرنے والے لوگ ہی پیدا کرنے ہیں- اگر اس طرح کی تحریک سے سوسائٹی کے assets ضائع  ہو گئے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا- موٹیویشنل اسپیکر،آن لائن پیسہ کمانے کے گر سکھانے والے، سکول، کالج، یونیورسٹیز یا اساتذہ- آخر میں تہذیب حافی کا ایک شعر.
اسی لیے تو میرا گاؤں دوڑ میں ہارا
جو بھاگ سکتے تھے بیساکھیاں بنارہے تھے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :