
انصاف کا ایک اور خون
اتوار 11 مئی 2014

منور علی شاہد
(جاری ہے)
بانی پاکستان نے اپنی تقریر میں جو پہلی دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں کی تھی اس میں دیگر سماجی برائیوں کے ساتھ ساتھ اقراء پروری سے بچنے کا انتباہ بھی کیا تھا۔کیونکہ اس بیماری کے بعد پھر کسی بیرونی دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔لیکن اس سابق چیف جسٹس نے اپنی بحالی کے بعد اسی خطرناک بیماری کا ٹیکہ وکیلوں اور ججوں کو لگادیا۔اس کے منفی اثرات کئی سالوں سے قوم کے سامنے ہیں لیکن تازہ ترین واقعہ ملتان میں راشد رحمان ایڈوکیٹ کا انکے آفس میں بہیمانہ قتل ہے۔ہومن رائٹس کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی جاری کردہ پریس ریلز کے مطابق راشد رحمان ایڈوکیٹ کو جج کے سامنے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی کہ اگلی پیشی تک تم زندہ نہیں رہوگے اور ان لوگوں نے کر دکھایا۔اس جج نے کیوں نہ ان لوگوں کے خلاف کاروائی کی اور ان کو نہ پکڑوایا۔یہ اسی اقراء پروری کا شاخسانہ ہے جس کی بنیاد اوپر سے رکھی گئی تھی۔اور اب وکیل اسی نظرئے کی بنیاد پر نہ صرف ججوں کو مارتے پھرتے ہیں بلکہ صحافیوں سمیت پولیس والوں کو بھی نہیں چھوڑتے، خود جج بھی ایسی مقدمات میں جو مذہبی بنیاد پر ہوں ان میں ان کی ہمدردیاں انتہاپسندوں کی طرف ہوتی ہے۔ اور بہت سے فیصلوں میں انہوں نے کھل کر اپنے ذاتی نکتہ نظر کو بھی بیان کیا ہے جو ان کے منصب کے منافی ہے ۔انصاف خود کرنے کی یہ روش ملک وقوم کو دنیا سے الگ تھلگ کرنے کا باعث بن رہی ہے جس طرح ایک ریاست کا کوئی عقیدہ نہیں ہوتا،ویسے ہی ایک جج جو منسف ہوتا ہے اس کا اپنا عقیدہ بھی اپنی ذات تک کا ہوتا ہے اس پر دل ودماغ کا کوئی حق نہیں ہوتا۔تاریخ اسلامی یہی کہتی ہے۔لیکن اب ہر جج مسلمان زیادہ ہے اور منصف ہے ہی نہیں تو پھر انصاف کا ترازو کیسے برابر رہ سکتا ہے۔سابق چیف جسٹس صاحب اپنے دور میں ایسے ہی ججوں اور وکیلوں کی آبپاری کر گئے ہیں جو اب آنے والے وقتوں میں مزید بدنامی اور مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔راشد رحمان ایڈوکیٹ کی جان بچائی جا سکتی تھی اگر جج صاحب صرف منصف ہی ہوتے۔مرحوم راشد رحمان سے میرا بہت اچھا تعلق تھا۔وہ بہت نفیس اور پرخلوص انسان اور غریبوں کو ہمدرد تھا۔انسانی ہمدردی اس کا وصف تھا۔ہنس مکھ اور ملنسار وکیل تھا۔وہ تمام ایسے قوانین جو خود پاکستان کی بدنامی کا با عث بن رہے ہیں کے خلاف اپنی عدالتوں میں دلیل کے ساتھ بات کرتے تھے لیکن مخالف فریق جوبندوق پر یقین رکھتا تھا ، نے گولی کے کے ساتھ ان کی ناحق جان لے کر خود قرآنی تعلیم اور ملکی قانون کی خلاف ورزی کی۔اور المیہ یہ کہ اب ان قاتلوں کے خلاف کوئی کاروائی بھی نہیں ہو گی ۔یہ صورت حال کسی بھی طور پر مسقبل کے حوالے سے خوش آئیند نہیں۔پاکستان کی عدلیہ کو فکر کے ساتھ اس تمام صورت حال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
منور علی شاہد کے کالمز
-
نظریہ ضرورت کا طوق پھر گلے پڑ گیا
جمعہ 7 اگست 2015
-
ریاست کی سلامتی کو یقینی بنانا
اتوار 1 فروری 2015
-
شہید طالب علم کی ماں کا نوحہ
پیر 22 دسمبر 2014
-
پاکستان میں سیلابوں کی تباہ کاریاں اور ہماری قومی بے حسی
جمعرات 2 اکتوبر 2014
-
نیا پاکستان ۔۔کیسا ہوگا
منگل 2 ستمبر 2014
-
سوچنے کی بات ہے
جمعہ 29 اگست 2014
-
انصاف کا ایک اور خون
اتوار 11 مئی 2014
-
غیر جانبدار جمہوری حکومت،آج کی ضرورت
ہفتہ 29 مارچ 2014
منور علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.