
نیا پاکستان ۔۔کیسا ہوگا
منگل 2 ستمبر 2014

منور علی شاہد
(جاری ہے)
آخری امید کے طور پر آرمی چیف کے ساتھ بھی مذاکرات ہوئے جن کو پرائم منسٹر نے قوم اسمبلی کے اندر اپنے خطاب میں داغدار کردیا۔اوربعد ازاں آرمی کی طرف سے فوری وضاحت کے بعد پوری قوم حیرت میں ڈوبی ہوئی سوچ رہی ہے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔عمران خان کے مطالبات اور طاہرلقادری کے الزامات دونوں ہی نہ صرف سنگین نوعیت کے ہیں بلکہ توجہ طلب بھی ہیں۔عمران خان انصاف کے حصول اور طاہرلقادری انصاف کے ساتھ ساتھ کرپٹ ،بدکردار اور ظالم نظام کے خلاف اپنی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اس بات اور حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس وقت پاکستان میں حقیقت میں ایسی ہی صورتحال موجود ہے۔انصاف کا حصول ایک خواب کی مانند ہے اور اس کے لئے ایک لمبی عمر اور قارون کا خزانہ درکار ہے۔اور بدکردار اور ظالم نظام کی مثالیں تو سانحہ ماڈل ٹاؤن اور وزیراعظم کے جھوٹ کی شکل میں سامنے موجود ہیں۔اب تک کی صورت حال سے واضع نہیں ہورہا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور کب۔لیکن تاریخ پاکستان ہمیں بتاتی ہے کہ یہاں سب کچھ عوامی مفادات کے لئے کبھی کچھ نہیں ہوتا لیکن عوام کو استعمال ضرور کیا جاتا ہے،ان کے جذبات اور ان کی عقیدت کو حصول اقتدار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔بعد ازاں سب کچھ بھول جانا ہی ملکی سیاست ہے
جہاں تک تعلق ہے نئے پاکستان اور انقلاب کا،تو یہ بات صد فیصد درست ہے کہ دونوں باتیں آج کی عام آدمی کا خواب ہیں اور ضرورت بھی۔لیکن اس کاحصول اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے۔نئے پاکستان کا مطلب سب کچھ نیا ہے۔نئی بنیادیں اور بانی قائداعظم کا تصور۔نئی جدید روشن خیال پارلیمنٹ،نئی عدالتیں اور غیرمسلم ججز کے ساتھ ۔نیا تعلیمی نظام جس میں نفرت کی بجائے محبت،انسان دوستی،رواداری اور عدل ومساوات کا درس ملتا ہو۔عمران خان کو نئے پاکستان کے حصول کے لئے ریاست کے تصور کو سمجھنا ہوگا۔جمہوریت کے معنی سمجھنے ہونگے۔اسلام کو ریاستی نہیں ہر ایک کا انفرادی بنانا ہوگا جیسا کہ دنیا کی جدید اور ترقی یافتہ اقوام میں کروڑوں مسلمان نے اپنایا ہوا ہے۔پاکستان کو آج اس جس مقام پر جن جن باتوں اور حرکتوں نے پہنچایا ہے ان سب سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کرنا ہوگی۔المیہ یہ ہے کہ خود ان تمام سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہے جو جمہوریت کا ڈھونڈ رچائے ہوئے ہیں۔ان میں سب سے بڑی لعنت شخصی نظام ہے جو سیاسی جماعتوں کے اندر موجود ہے،خاندانی نظام کی آجارہ داری کے خاتمہ کے بغیر جمہوریت کا خواب شرمندہ تعمیر نہیں ہوسکتا۔اس کے ساتھ ساتھ مذہب کو سیاست سے بھی الگ کرنا ہوگا۔ریاست اور مذہب دونوں الگ الگ ہیں۔دونوں کو نصف صدی سے ساتھ ملاکر جو کچھ بویا تھا وہی اب تک کاٹا جارہا ہے لیکن وہ فصل اتنی ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آرہی۔اس بات سے واضع ہوچکا ہے کہ اب تک مذہب اور ریاست کے ملاپ سے خون خرابہ اور فساد ہی ہوا ہے۔امن اور رزق دونوں ختم ہوئے۔عمران خان اپنے صوبے سے ٓگاز کریں کہ نیا پاکستان ایسا ہوگا۔
جمہوریت کے خدوخال میں مساوات،رواداری،عدل و انصاف،مساوی حقوق قابل ذکر ہیں۔اور قانون کی نظر میں مسلم وغیرمسلم دونوں مساوی ہوتے ہیں۔ایک حقیقی اور جمہوری ملک میں صدر،وزیراعظم،آرمی چیف سمیت کسی بھی اعلیٰ سرکاری عہدے کے لئے مسلمان یا عیسائی ہونا لازمی نہیں ہوتا بلکہ اہلیت و قابلیت ہی بنیاد ہوتی ہے۔کیا نئے پاکستان میں ایسا سب ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی غیر مسلمان صدر پاکستان یا وزیراعظم بن سکے۔کیا کسی مزدور یا اخبار بیچنے والے کا بیٹا وزیراعظم بن سکتا ہے جیسا کہ انگلستان میں ہوتا ہے سیاسی جماعت کا عام کارکن جو اہلیت میں نمایاں ہو وہ اعلیٰ سیاسی عہدے پر فائز ہوسکے گا۔اتنا وصف کون اور کیسے پیدا ہوگا۔کیا عدالتیں عام آدمی کو فوری انصاف دے سکیں گی۔پسینہ خشک ہونے سے قبل مزدور کو اس کی مزدوری مل جانی ممکن ہوگا۔کیا کسی بیروزگار اہل کو بغیر سفارش میرٹ پر نوکری ملنی ممکن ہوسکی گی۔عورت کو گھر کے باہر تحفظ مل سکے گا۔ تعلیمی ادارے میں ایک ہی سیٹ پر مختلف مذاہب کے طالبعلموں کا مل کر ایک ہی مساوی علم ممکن ہوگا۔ یہ سب کچھ ممکن ہے اور دنیا کے ممالک میں مثالیں موجود ہیں اور ان کے حصول کاآغاز ان کے آئین سے ہوتا ہے جس میں مساوات،عدل انصاف،اور مساوی حقوق کو بنیادی اہمیت ملی ہوتی ہے۔ترقی یافتہ اقوام کے آئین میں امتیازی قوانین کے بجائے وہاں مذہب سے بالا صرف اہلیت کو فوقیت دی جاتی ہے برطانیہ میں عام مسلمان کلیدی عہدوں پر پہنچے ہیں کہ وہاں نظام شفاف ہے۔پاکستان کے موجودہ آئین میں یہ ممکن نہیں۔تو کیا نیا پاکستان نئے آئین کے ساتھ معرض وجود میں آئے گا جس کے لئے آج کل اسلام آباد میں جدوجہد ہورہی ہے یا کہ پھر عوام کو سبز باغ دکھائے جارہے ہیں۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
منور علی شاہد کے کالمز
-
نظریہ ضرورت کا طوق پھر گلے پڑ گیا
جمعہ 7 اگست 2015
-
ریاست کی سلامتی کو یقینی بنانا
اتوار 1 فروری 2015
-
شہید طالب علم کی ماں کا نوحہ
پیر 22 دسمبر 2014
-
پاکستان میں سیلابوں کی تباہ کاریاں اور ہماری قومی بے حسی
جمعرات 2 اکتوبر 2014
-
نیا پاکستان ۔۔کیسا ہوگا
منگل 2 ستمبر 2014
-
سوچنے کی بات ہے
جمعہ 29 اگست 2014
-
انصاف کا ایک اور خون
اتوار 11 مئی 2014
-
غیر جانبدار جمہوری حکومت،آج کی ضرورت
ہفتہ 29 مارچ 2014
منور علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.