بابا جی کہتے ہیں

ہفتہ 8 اگست 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

لفظ بابا جی کی مقبولیت اصل بابا جی کے عرصہ حیات میں شائد اتنی نہیں ہوئی جتنی کہ بابا جی اشفاق احمد نے اپنی پندونصائح،کالمز اورداستان گوئی میں اسے معروف کیا۔بابا جی تصوف میں دانش،فکرِ اصل،خدا سے تعلق اورامر بالمعروف و نہی عن المنکر کے پیغام کو عام انسانوں تک پہنچانے کے استعارہ کا درجہ رکھتا ہے۔جب کبھی ،کہیں بھی اورکسی بھی محفل میں بابا جی بولا جاتا ہے تو ایک سنجیدہ،عاقل وعامل بزگ کا تصور ابھر کر سامنے آتا ہے۔

لیکن بابا جی کو جتنی معروفیت و مقبولیت سوشل میڈیا پر ملی ہے اتنی شائد اصل بابا جی کو ان کی زندگی میں بھی نہ ملی ہوگی۔اور تو اور کچھ احباب تو اپنے دل کا کرودھ اور بھڑاس بابا جی کا نام لے کر اپنی وال پر اپلوڈ کر کے نکال لیتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ایسی دانش مندانہ اپلوڈ کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ایسے فکر مندانہ بابا جی سے احتراز ہی رکھا جائے تو معاشرہ کے لئے بہتر ہو گا۔

لیکن بعض اوقات ایسی ہی وال پہ بابا جی کا نام لے کر بڑی باشعور اور مبنی برحقیقت پوسٹ بھی اپلوڈ کی جاتی ہیں تو ایسی صورت میں یہ نہ دیکھا جائے کہ کون کہہ رہا ہے بس یہ ذہن میں رکھیں کہ کیا کہا جا رہا ہے۔یقین مانیں اگر آپ اپنی ذہن کے مطابق اپنے اصولوں پر زندگی استوار کریں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسرت وانبساط آپ کا مقدر نہ ہو۔جیسے کہ ایک بابا جی سے کسی نے پوچھا کہ
بابا جی میں خوش رہنا چاہتا ہوں
بابا نے جواب دیا کہ بیٹا سب سے پہلے تو اس فقرہ میں سے لفظ”میں“نکلا دو،کیونکہ میں تکبر کی علات ہے اور پھر اس فقرہ سے ”چاہتا“ کو منہا کر دو کیونکہ یہ شدت خواہش کا نام ہے اور ایسی شدت انسانوں کو گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔

باقی جو بچتا ہے وہ خوشی ہی ہے۔مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم ایک ایسی قوم کے افراد ہیں جو اپنی ایک بوٹی کے لئے کسی کا ایک مکمل بکرا ذبح کر دیتے ہیں۔اگر ہم اپنی انا،خود پرستی،ہوس اور لالچ کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے کے ساتھ محبت واخوت سے پیش آنا شروع کر دیں تو دیکھ لیجئے گا کہ ہم سے بہتر کوئی معاشرہ دنیا میں نہیں ہو گا۔اصل مسئلہ کہاں پیدا ہوتا ہے؟ہم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کیونکہ ہم صرف اپنا سوچتے ہیں جب ہماری سوچ اجتماعیت کا روپ دھار لے گی ہمارا تذکرہ بھی دنیا کے فلاح وبہبود اور ترقی یافتہ معاشروں میں ہونے لگے گا۔

ہم اپنا تب سوچتے ہیں جب ہمارے قول و فعل میں تضاد ہوگا۔ہمارا دوہرا معیار ہوگا۔ایک چہرے پر کئی چہرے سجا کر ایک دوسرے سے گلے ملیں گے تو پھر معاشرتی خوش حالی کہاں سے آ ئے گی۔وہ کیا خوبصورت شعر ہے کہ
حج وی کیتی جاندے او
لہو وی پیتی جاندے او
کھا کے مال یتیماں دا
بھیج مسیتی جاندے او
بابا جی یہ بھی کہتے ہیں کہ دنبہ ذبح کرنے سے قبل ضروری ہے کہ اپنے نفس پہ بھی چھری چلا لی جائے کیونکہ نفس ہی ہے جو انسان سے ایسی حرکات کرواتا ہے کہ بنی آدم اشرف المخلوقات سے پاتال میں گر جاتا ہے۔

یعنی سنت ابراہیم پت عمل پیرا ہونے سے قبل اگر اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی ڈھال لی جائے تو زیست کا رنگ دو آتشہ ہو جاتا ہے۔بابا جی کہتے ہیں کہ حسد انسان کو انسان سے دور تو کرتا ہی ہے اپنے آپ سے بھی دور کر دیتا ہے۔کیونکہ حسد سے مراد ہے کہ تم اس جیسا بننا چاہتے ہو جس سے تم حسد کرتے ہو،یہ قاعدہ قانون فطرت کے خلاف ہے۔کیونکہ کوئی بھی دوسرے جیسا نہیں اور کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ماسوا تقویٰ کے۔

جب قانون قدرت یہ ہے تو پھر دوسروں جیسا ہونے کی حسد میں مبتلا ہو کر کیوں اپنے آپ کو نار جہنم میں ڈال رہے ہو۔یہ حسد ہی ہے جو انسان میں زہر پیدا کرتا ہے۔اب زہر کیسے پیدا ہوتا ہے تو اس کا جواب میرے بابا جی جناب مولانا روم  دیتے ہیں۔ایک بار کسی نے مجھ سے سوال کیا کہ مولانا صاحب زہر کیا ہے تو جواب دیا کہ وہ سب جو تمہاری ضرورت سے زیادہ ہے وہ زہر ہے۔

حسد بھی اسی بات کے لئے پیدا ہوتا ہے جو کہ تمہارے پاس نہیں لیکن کسی دوسرے کے پاس ہے۔لہذا ہمیں کسی کسی کو دیکھ کر اپنی زندگی عذاب نہیں بنانا چاہئے۔یقین جانئے کہ اگر ہم کسی اور کے محلات کودیکھ کر حسد کرنے کی بجائے اپنی کٹیا میں خوش رہنا سیکھجائیں گے اس دن ہم کامیاب ہو جائیں گے۔
زندگی اتنی بھی دشوار نہیں
اپنی اپنی گزارئیے صاحب
کبھی کبھار میں ایسے ہی اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے اپنی کلاس کے بچوں کو بابا جی کے نام سے منصوب کر کے اپنی بات کہہ جاتا تھا۔

اور زیادہ تر اپنے مضمون میں سے حوالہ کے لئے فرمان قائد بھی بچوں کو سناتا رہتا تھا تاکہ بچوں میں ذوق وشوق پیدا ہو۔ایک دن کلاس میں کیا ہوا کہ میں اپنا لیکچر دے رہا تھا کہ سب سے نالائق بچے نے ہاتھ اٹھایا جو کہ میرے لئے پریشان کن بھی تھا کہ جس بچے نے کبھی کچھ پوچھا نہیں آج کیا پوچھنے والا ہے۔میں نے اسے اجازت دی کہ ہاں بیٹا کیا پوچھنا ہے تو اس نے کھڑے ہوتے ہوئے بڑے ہی معصومانہ انداز میں سوال کیا کہ سر یہ بابا جی کو کہنے اور قائد اعظم کو فرمانے کے سوا کوئی کام نہیں تھا زندگی میں کیا؟بابا جی جو بھی تھے،تھے بھی کہ نہیں لیکن ہم نے اپنی نسل کو ان مقالات وپند ونصائح پر عملدرآمد کر کے دکھانا ہے کہ ہمارا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

ہمارا کلچر،تہذیب اور تمدن ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :