
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021

مراد علی شاہد
واقعی قوم احتجاج کے لئے مہینوں سڑکوں پر کھڑی ہو سکتی ہے لیکن سگنل پر کھڑے ہونے میں انہیں تکلیف ہوتی ہے۔
(جاری ہے)
ملک میں جو قوم لائن میں کھڑے ہونے کو کھڈے لائن یا اپنی شخصیت کی توہین سمجھتی ہے دیار غیر میں ایک دم سے پتہ نہیں کیوں تہذیب یافتہ ہو جاتی ہے۔میں نے دو دہائیاں غیر ملک میں گزار کر یہ اندازہ لگایا ہے کہ دیار غیر میں دو خوف سے ہم پاکستانی لائن میں لگتے ہیں۔یورپ میں ہو تو ڈنڈے کا خوف اور عرب ممالک میں ہوں تو کفیل کا ڈر ۔اگر یہی لوگ پاکستان میں ہوں تو انہیں لائن لگانے میں نہیں، لائن توڑنے میں مزہ آتا ہے۔اسی سال کی بات ہے جب میں تعطیلات گرما گزارنے پاکستان گیا تو لاہور ائیر پورٹ پر اترتے ہی میرے ایک ہم عصر نے جہاز چھوڑتے ہی یوں ریس لگا دی جیسے کہ کل اس کا سو میٹر کا فائنل ہو۔بندوں کو کندھے مارتے ،لائن توڑتے ہوئے،امیگریشن کی لائن میں سب سے آگے جا کر یو ں لمبے لمبے سانس لینے لگا جیسے کہ کوئی غریب سکھ کا سانس لے رہا ہو۔میں نے پوچھا یار ماجرا کیا ہے آپ نے ایسا کیوں کیا۔تو کہنے لگا یار دو سال بعد پاکستان آیا ہوں،قانون کی پاسداری کرتے کرتے طبیعت عجیب سی بلکہ ”کچی پکی“سی ہو گئی تھی،اب اپنے ملک میں آیا ہوں توروح کو بھی تو پتہ چلنا چاہئے کہ پاکستان پہنچ چکی ہے۔
1990 کی دہائی میں جب ابرار الحق کا مشہور زمانہ گانا ”کنے کنے جاناں اے بلو دے گھر“مارکیٹ میں آیا تو میری قوم کا ہرفرد اس وقت سے ہی بلو دے گھر تو لائن لگانے کو تیار ہے مگر سرکاری دفتر کے باہر نہیں۔ان دنوں کچھ ”بلو“کو تو اپنے گھر کے باہر لائن دیکھ کر اپنا نام بھی تبدیل کرنا پڑگیاتھا ۔میرے اپنے علاقے میں ایک لڑکی کا نام بلو تھا ،جب بھی وہ مارکیٹ جاتی ہر طرف سے صدائیں بلند ہونا شروع ہو جاتیں کہ ”کنے کنے جانا ں اے بلو دے گھر“،اس بے چاری کو عوام کی ہوٹنگ سے تنگ آکر اخبار میں اشتہار دینا پڑ گیا کہ آج کے بعد اسے ”بلو“ نہیں بلکہ بلال کے نام سے لکھا اور پکارا جائے۔
آج کل حکومت پاکستان ہر سرکاری دفتر میں ایک ”بلو“تعینات کرتی جا رہی ہے۔یہ سوچتے ہوئے کہ جہاں ”بلو“ہوگی شائد وہاں لائن بھی ہوگی۔مگر یہ حکومت کی خام خیالی ہی نکلی کیونکہ ایسی تمام جگہوں پر جہاں حکومت نے بلو کی تعیناتی اس نیت سے کر رکھی ہے کہ وہاں عوام لائن لگائیں گے،وہاں لائن تو نہیں لگی،مگر لائن مارنے والوں کی بھرمار ضرور دیکھنے میں آتی ہے۔کارپوریٹ ورلڈ میں تو پہلے سے ہی کئی کئی” بلو رانیاں“ تعینات تھیں۔اسی لئے ہر کارپوریٹ دفتر میں آپ کو ہرکام نظم و ضبط میں دکھائی دے گا۔ان کی دیکھا دیکھی ہی تو سرکاری دفاتر نے بھی اپنا منہ لال کرنا شروع کیاہے۔اگر کسی بینک یا سرکاری دفتر میں عوام الناس لائن میں نظر نہ آئیں تو سمجھ جائیں کہ” بلو لال “نہیں بلکہ” سیاہ “ہے۔ایسے ہی ایک سرکاری دفتر میں ایک” سیاہ بلو“ کو دیکھ کر اس گیت کی سمجھ آئی جو کہ شائد زندگی بھر سمجھ نہ پاتا کہ
کالج کی کینٹین سے کالج کے کیش آفس تک ہر جگہ جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے کہ لائن میں آئیں۔نوجوان طلبہ لائن بنانے میں اتنی توجہ نہیں دیتے جتنا انہماک لڑکیوں کو لائن مارنے میں ظاہر کرتے ہیں۔مگر جناب آج کی شوریاں،شوروں سے کم ہیں کیا؟وہ بھی لڑکوں کو ایسے کھڈے لائن لگاتی ہیں کہ ساری عمر یاد رکھتے ہیں۔ایک مثال تو میرے اپنے کلاس فیلو کی ہے جو ہم سب کے سمجھانے کے باوجود بھی اپنی ہی کلاس فیلو سے پسند کی شادی سے منع نہیں ہوا۔اب ایک بیوی،اور چھ بچوں کی لائن میں ایسے آگے آگے چلتا ہے جیسے کہ ریلوے کا کالا انجن ٹرین کے آگے۔میرا تدریسی تجربہ یہ کہتا ہے کہ بچوں کو پڑھنے میں دلچسپی ہو نہ ہو،اسمبلی میں لائن لگائیں نہ لگائیں لیکن نوٹ بک پر لائن لگانے کو پسند ضرور کرتے ہیں، اس لئے نہیں کہ نوٹ بک خوب صورت لگے بلکہ اس لئے کہ ایسے عمل میں وقت کا ضیاع سب سے زیادہ ہوتا ہے۔کبھی تجربہ کر لیجئے گا جس بچے کی نوٹ بک پر لائن خوب صورت ہوگی اس کی لکھائی اتنی ہی گندی ہوگی۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی لکھائی والے اکثر ڈاکٹر بن جاتے ہیں۔جن کے نسخے دیکھ کر ضرب المثل کی صداقت کا یقین ہو جاتا ہے کہ لکھے موسا پڑھے خود آ ۔ایسے بچوں کو مشغول رہنانہیں بلکہ شغل میں رہناپسند ہوتا ہے۔یقین کیجئے کہ پھول اور درخت بھی وہی خوبصورت اور پیارے لگتے ہیں جو لائن میں ہوں وگرنہ جنگل۔ہم تو اشرف المخلوقات ہیں ہم کیوں معاشرہ کو جنگل اور جہنم بنانے پر تلے ہوئے ہیں،بس ایک لائن بنانے کے عمل پر عمل پیرا ہوجائیں آپ دیکھئے گا کہ آپ کے ارد گرد ماحول کتنا پیارا اور خوبصورت ہو جائے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.