برف کا کفن

بدھ 12 جنوری 2022

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

پاکستان کے معروف کوہ پیما علی صد پارہ اور مشہور ومقبول سیاح مستنصر حسین تارڑ کا کہنا ہے کہ پہاڑوں پر جب برف گرتی ہے تو کوہ ودمن مجھے بلاتے ہیں اور دل چاہتا ہے کہ سب چھوڑ کر پہاڑوں کی طرف نکل جائیں۔بلکہ علی صد پارہ تو اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر وہ برفیلے پہاڑوں سے کبھی واپس نہ آئے تو فکر نہ کرنا میں ان میں اپنا گھر بنا کر رہ لوں گا۔

نہ جانے اس کی یہ دعا قبول ہو گئی کہ کہ وہ ایسا گیا کہ لوٹ کر نہ آیا اور انہیں پہاڑوں پر پڑی برف میں کہیں ابدی گھر بنا کر ابدی نیند سو رہا۔ایسا کیا ہے پہاڑوں پر گری برف میں کہ جب بھی سنو فال کا سیزن آتا ہے تو من چلوں کے ساتھ ساتھ دل جلے،سیاح،فلاسفر اور قدرت سے محبت کرنے والے اپنے خاندانوں اور بیوی بچوں تک کو چھوڑ کر شمالی علاقہ جات کا سفر شروع کر لیتے ہیں۔

(جاری ہے)

یقینا ان کے لئے سفید رنگ کی اس چادر میں ضرور کوئی سحر ہوگا جو لوگوں کو سحر گزیدہ کر لیتی ہے۔
ایسا ہی کچھ گذشتہ روز ملکہ کوہسار مری میں بھی ہوا کہ یونہی ملکہ کوہسار کے خوبصورت چہرے کو برف کی سفید چادر نے اپنے پلو میں اوڑھ لیا تو یارانِ سحر گزیدہ سیتل نے اپنے آپ کو بنا سوچے سمجھے ان پہاڑوں کے سپرد کردیا۔بنا سوچھے سمجھے میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جب کبھی بھی سفر پر نکلا جائے تو زاد راہ کاخیال رکھنا بھی مسافر کا ہی فرض ہوتا ہے۔

اب یہ زاد راہ صرف یہی نہیں کہ کھانے پینا کے لئے کچھ ساتھ رکھ لیا جائے نہیں بلکہ دور حاضر میں زاد راہ وسیع معنوں میں مستعمل ہے کہ مسافر کو اپنے سفر کے راستوں،مقام منزل کے تعین کی مکمل معلومات،وہاں کا موسم،قیام و طعام کے علاوہ اس علاقے میں متوقع درپیش مسائل و مشکلات کا علم بھی اسی میں شامل ہے۔اس لئے کہ اب دنیا سمٹ کر آپ کے ہاتھ میں آچکی ہے۔

یورپی دنیا میں جب کبھی بھی بھلے ویک انڈ ہی کیوں نہ ہو لوگ جب گھرو ں سے پکنک کے لئے نکلتے ہیں تو خاص کر مقام منزل کے موسم کا حال ضرور دیکھ کر نکلتے ہیں۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم جب گھر سے نکلتے ہیں تو صرف یہ ایمان لے کر نکلتے ہیں کہ کچھ نئیں ہوندا۔سامان راستے سے پکڑ لیں گے،پیسے جیب میں ہیں تو پھر ڈر کاہے کا۔زاد راہ کو ہم راہ سے لینے کے قائل ہیں۔

لیکن کیا یہ عین اسلام ہے؟نہیں ایسا کہیں بھی نہیں کہ آپ سفر میں ہوں یا جنگ کی حالت میں بنا ساز و سامان اور آلات حرب کے میدان میں نکل کھڑے ہوں۔یہی کچھ مری میں پیش آنے والے سانحہ میں ہوا۔کہ یونہی عوام الناس کو پتہ چلا کہ برف باری اپنے عروج پر ہے تو یارانِ جہاں نکلکھڑے ہوئے ہوئے اپنے اپنے ہم منصبوں،ہم جولیوں ، ہم عصروں اور فیملی ممبران کے ساتھ،یہ سوچے بنا کہ برف کتنے فٹ پڑی ہے اور یہ سلسلہ کتنے دن جاری رہے گا۔

اگر گھر چھوڑنے سے قبل چند باتوں کا خیال رکھا ہوتا تو شائد وہ جو دنیا فانی سے کوچ کر گئے آج اپنے اپنے پیاروں کے ساتھ بیٹھے ہوتے۔وہ چند باتیں یہ ہو سکتی ہیں کہ جب بھی گھر سے کسی صحت افزا مقام کی سیر کو نکلیں تو سب سے پہلے آج کے ترقی یافتہ دور میں وہاں موسم کا حال ضرور جان لیں کیونکہ یہ وہ دور ہے جس میں ہر بندہ کے پاس موبائل کی سہولت ہے۔

جب تک ہوٹل کی بکنگ کنفرم نہیں ہو جاتی آپ گھر سے نہ نکلیں،موسم کی سختیوں سے کیسے نپٹا جا سکتا ہے اسے بھی ملحوظ خاطر رکھیں،ممکن ہو تو چند ایسی ادویات ضرور اپنے ساتھ رکھیں جو راستے میں کام آسکتی ہوں،جیسے کہ بخار،زکام،سر درد وغیرہ۔
اب دیکھتے ہیں کہ اس سانحی کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ سب سے بڑی ذمہ داری تو حکومت وقت کی ہی بنتی ہے کہ انہوں نے آنے والے حالات کے مطابق ایسے انتظامات کیوں نہیں کئے کہ اگر برف باری شدت اختیار کع جاتی ہے توشاہراہوں کو صاف کر کے جلد از جلد ٹریفک کی روانی کو ممکن بنایا جا سکے، اس لئے کہ اگر سیاہوں کو ہوٹل مالکان کی بے رحمی اور پیسہ کے لالچ نے انسان سے حیوان بنا بھی دیا تو شاہراہوں پر روانی کی صورت میں وہ لوگ اسلام آباد اور راول پنڈی کا رخ کر سکتے تھے۔

ایسی صورت میں بھی ان کی جان بچائی جا سکتی تھی۔پھر ریسکیو ٹیم کی بروقت پہنچ بھی ممکن ہو جاتی تو بھی لوگوں کی جان بچائی جا سکتی تھی،حکومت وقت خاص کر حکومت پنجاب جو اب نعرہ زن ہے کہ ذمہ داران سے آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا،یہی آہنی ہاتھ اس وقت اگر انتظامیہ کو ایکٹو کرنے کے لئے استعمال کر لئے جاتے تو جان کی بازی ہارنے والے اپنے پیاروں کے ساتھ بیٹھے ہوتے۔

لیکن ساری ذمہ داری حکومت پر ڈالنا بھی کچھ عقل مندی نہ ہوگی کیونکہ سبھی باشعور لوگ ہیں ،سب جانتے ہیں کہ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا پاکستان کے نتظامی ڈھانچہ کا کیا کردار رہا ہے۔لہذا اپنی زندگی کی حفاظت کے لئے ملکی اداروں پر اعتبار چہ معنی والی بات ہوگی۔میرا ماننا یہ ہے کہ زندگی اپنی ہے تو خود ہی حفاظت بھی کرنا ہوگا،وگرنہ یہی حال ہوگا جو مری کی برفباری نے کیا ہے۔

خدا را تھوڑا سا صبر کر لیا کریں اور گھر سے نکلنے سے قبل منزل کی تعین اور وہاں کے حالات و واقعات کو مدنظر رکھ لیا کریں،اگر یہ سب احتیاطی تدابیر نہیں اپنائیں گے تونہ جانے برف کی چادریں کب تک سفید کفن بن کر ہماری لاشوں کو دفناتی رہیں گی۔ کیونکہ انتظامیہ تو کجا سیاحتی مقامات پر ہوٹلز کے تاجر وں نے بھی بے حسی کی چادر اوڑھ رکھی ہے،اس لئے اس سے قبل کہ برف کی سفید چادریں مزید لوگوں کے لئے سفید کفن بن جائے ہمیں خود سے احتیاط کرنا ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :