ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟

ہفتہ 20 نومبر 2021

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر اپوزیش کا موقف گاؤں کے اس میراثی جیسا ہے جسے شادی پہ نہ بلایا جائے تو اسی شادی میں اپنی جگت بازی کی آڑ میں سب کے سامنے کہنا شروع ہو جاتا ہے کہ دیکھ لینا اس کڑی نے وسنا نئیں۔گویا پنڈ وسے نئیں اچکے پہلاں ای آ گئے۔اگر پاکستان کی صرف اسی دہائی کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ 2011 میں جب پیپلز پارٹی بر سر اقتدار تھی تو الیکشن کمیشن کا پر زور اصرار تھا کہ دنیا ٹیکنالوجی کے میدان میں کس قدر ترقی کر چکی ہے اور ہم ابھی تک فرسودہ اور پرانے نظام کے تحت الیکشن کے انعقاد میں پھنسے ہوئے ہیں اس لئے ہمیں ای وی ایم کے ذریعے سے الیکشن کا انعقاد کروانا چاہئے،اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے باقاعد ہ حکومتی نمائندوں کو ایک ڈیمو کے ذریعے ای وی ایم کے استعمال پر قائل کرنے کی سعی بھی کی۔

(جاری ہے)

بات وہاں ختم نہیں ہو جاتی ،پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی اور بعد ازاں نون لیگ کی اپنی حکومت میں بھی دونوں میاں صاحبان کے بیانات کو اگر سنا جائے تو یوں محسوس ہوگا کہ جیسے ملک میں یہی ایک مسئلہ ہے جس کے حل سے الیکشن کمیشن اور انتخابات کے تمام مسائل اور ل جڑے ہوئے ہیں۔اور یہ بیانات کچھ زیادہ پرانے نہیں ہیں میں نے عرض کیا کہ صرف ایک دہائی پر مشتمل یہ بیانات اور الیکشن کمیشن کا اصرار تھا۔


اب کیا وجہ ہوئی کہ جب ای وی کے استعمال اور اوورسیز کو ووٹ کے حق کی قرارداد مشترکہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں منظور کروالیا تو وہی ای وی ایم جو کہ دونوں بڑ ی سیاسی جماعتوں کے ادوار میں حلال تھیں ایک دم سے حرام ہونا کیوں قرار پائی۔میرا خیال ہے ای وی ایم کا استعمال حرام ہونا قرار نہیں بلکہ اس کے استعمال سے ان دونوں جماعتوں کو شائد قرار نصیب نہیں ہو رہا۔

ای وی ایم کے بارے میں حنا پرویز سے،میاں صاحبان اور بلاول تک کے مضحکہ خیز بیانات اگرچہ ایک الگ بحث ہے،لیکن میں کبھی کبھار یہ ضرور سوچتا ہوں کہ چلیں مسلم لیگ نون کے ووٹرز کو تو ہم ان کی ہٹ دھرمی اور میاں صاحبان سے خواہ مخواہ کا مقتدی ہونے کی وجہ سے پٹواری کہتے ہیں مگر یہ بلاول صاحب تو دنیا کی بہترین تعلیمی درسگاہ سے فارغ التحصیل ہیں۔

ان کا بھی وہی موقف ہے جو کہ ن لیگ کے قائدین نے اپنا رکھا ہے۔اگر بقول بلاول ہم ای وی ایم،آئندہ انتخابات اور اوورسیز کو ووٹ کے حق کو تسلیم نہیں کرتے،تو میری طرح بہت سے اہل فکر وعلم کو ضرور خدشہ ہوگا کہ کیا بلاول صاحب کو دنیا کی بڑی یونیورسٹی نے بھی کچھ نہیں بگاڑا۔کہ وہ آج بھی ستر کی دہائی کا اپنے نانا کا پاکستان اور عوام استعداد اور ذہنی استعداد کا سوچ رہے ہیں۔

نہیں بلاول صاحب اب حالات بدل چکے ہیں،پاکستانی عوام اب آپ کے نعروں پر سر نہیں ہلائیں گے،خاص کت وہ پاکستانی جو تارکین وطن بن کر پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔جن کی تعداد ایک کروڑ کے قریب اور وہ ہر سال تیس ارب ڈالر کا زر مبادلہ ملک میں بھیجتے ہیں۔ہماری کسی حکومت نے کبھی غور کیا کہ اتنے زرمبادلہ کی تو ہم ایکسپورٹ بھی نہیں کرتے جتنا کہ زر دنیا میں آ باد اوورسیز ملک پاکستان کے اکاؤنٹ میں ترسیل کرتے ہیں۔


گویا جب خود اقتدار کے مزے میں ہوں تو ای وی ایم جائز و حلال اور عمران خان ہو تو وہی ٹیکنالوجی حرام۔گویا میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو۔اچھا حکومت وقت کہہ رہی ہے کہ ہم ایک سال میں ملینز مشین بنا سکتے ہیں کیونکہ وہ محض ایک کیلکو لیٹر کی طرح ہے ۔اور ایسا ممکن بھی ہے کیونکہ ٹیکنالوجی ترقی کر چکی ہے اور پھر چین جیسا ملک تو دنیا میں کسی بھی بڑے تجارتی آرڈر کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے لیکن اپوزیشن اس بات پر بضد ہے کہ نہیں ای وی ایم کے استعمال کے لئے وقت کم ہے۔

گویا گواہ چست اور مدعی سست۔
میری ذاتی رائے میں حزب مخالف وکو بغض عمران سے نکل کر اوور سیز کے بارے میں عجب قسم کے بیانات سے احتراز کرتے ہوئے ان کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے خیالات کا پہرہ دینا چاہئے تھا۔خواہ ای وی ایم کا استعمال ہو یا اوورسیز کو ووٹ کا حق ہو۔کیونکہ اگر آج اوورسیز عمران خان کے ساتھ ہیں تو ہمارے ن اور پی کے سربراہان کو یہ کیوں نہیں پتہ کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی۔

اگر آج اوورسیز عمران حکومت کے ساتھ ہیں تو کل آپ کے ساتھ بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ ماضی میں تھا۔اگر ایسا نہ ہوتا کہ قرض اتاروملک سنواروں کی مد میں اربوں ڈالرز اوور سیز پاکستانی آپ کو کیوں دیتے،اس وقت اوورسیز کا آپ کی ذات پر اعتماد ہی تھا۔کہ انہوں نے اپنے ملک کو مشکل وقت سے نکالنے کیلئے آپ پر اعتماد کا اظہار کیا۔اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ آپ براہ راست اوورسیز کے خلاف بیانات دینے سے بھی گریز پا نہیں ہیں۔

آپ کو تو چاہئے تھا کہ ان کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کا دل جیتنے کو کوشش کرتے نا کہ عباسی،شہباز شریف اور حنا پرویز جیسے لوگوں سے بیانات دلوا کر اووسیز کو اور بھی خلاف کر لیتے۔
اب اگر الیکشن کمیشن بھی حکومت وقت کی ڈیمو سے متاثر ہو کر اپنا فیصلہ سنا دیتا ہے کہ ای وی ایم کے ذریعے ملک میں صاف شفاف الیکشن کروائے جا سکتے ہیں اور یہ سب آئندہ الیکشن میں ممکن ہے تو پھر آپ کس کی ماں کو خالہ کہیں گے۔

لہذا بحثیت منجھے ہوئے سیاستدانوں کے زیرک فیصلہ کرتے ہوئے اس ٹیکنالوجی کے ساتھ کھڑے ہوں،خواہ اس کا آغاز عمران خان ہی کر رہا ہے۔کیوں کہ یہ ملک عمران خان اکیلے کا نہیں ہے بلکہ بائیس کروڑ عوام کا ہے۔اگر بائیس کروڑ عوام کے بہتر اور شانداد مستقبل کا فیصلہ اسی ایک فعل میں پوشیدہ پے تو آگے بڑھیں اور آئندہ الیکشن میں اپنا بہتر اور مثبت سیاسی تاثر عوام کے سامنے پیش کریں۔بالکل ویسے ہی جیسے مہنگائی کے موقف میں آپ سب عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔اگر ایسا نہی تو پھرحزب مخالف میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو عوام کے سامنے اپنا مدلل موقف بیان کرنا ہے جو مشین چند سال قبل آپ کی نظر میں حلال تھی اب حرام کیوں ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :