مسجدیں مرثیہ خواں ہیں۔۔۔۔

منگل 11 اگست 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

زمانہ ابدسے عصرِ حاضر تک جتنے بھی مذاہب ظہور پذیر ہوئے ان کے ماننے والوں نے اپنی اپنی طرز عبادت کی بجاآوری کے لئے عبادت گاہیں تعمیر کروائیں،جیسے کہ عیسائیوں نے کلیسا،یہودیوں نے کنشت،ہندؤوں نے مندر،سکھوں نے گوردوارہ،بدھ مت نے اسٹوپا اور آخری امت یعنی مسلمانوں نے آقا ﷺ کے حکم کے مطابق مساجد کی تعمیر فرمائی۔عبادت گاہوں کی تعمیر اور زیبائش کا مقصد صرف اور صرف یہ ہوتا ہے تاکہ اس مذہب کے ماننے والے گھر کے ماحول سے نکل کر مکمل خشوع وخضوع اور مکمل انہماک کے ساتھ عبادت کے فرائض کی ادائیگی کو ادا کر سکیں۔

اسی لئے تمام مذاہب میں معبدکو اہمیت خاص حاصل ہوتی ہے۔اگر ہم مذہب اسلام کی بات کریں تو شروع اسلام میں مساجد کو ہر اس مقصد کے لئے استعمال کیا گیا جس کا تعلق اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود سے تھا جیسے کہ اسے بطور مشاورت کے استعمال کیا گیا ،پنچائت،عسکری تربیت،وفود سے ملاقات،ان کی رہائش اور سب سے بڑھ کر عبادت کے لئے استعمال کیا گیا۔

(جاری ہے)

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے جیسے اسلام کا پرچم دنیا میں فاتح کی حیثیت سے بلند ہونا شروع ہوا تو دیگر ادارے اور ان کو چلانے والے بھی آتے گئے۔پھر ایک وقت میں مسجد کو صرف اور صرف عبادت کے لئے ہی استعمال کئے جانے لگا تاکہ مسلمان وہاں دنیا وما فیہا سے بے خبر ہو کر مکمل انہماک اور توجہ سے مصروف ِ عبادت ہو سکیں۔عبادت میں خشوع وخضوع کے لئے مساجد کے ماحول ،تزئین وآ رائش کے ساتھ ساتھ اس کا احترام بھی بڑھنے لگا۔

بلکہ میں نے تو دیکھا ہے کہ کچھ لوگ مسجد کی طرف پیٹھ کر کے بھی نہیں گزرتے کہیں تعظیم میں کوئی فرق نہ آجائے۔
حسن بصری کہتے ہیں کہ مساجد کی تعظیم کی جائے اور اسے ہر قسم کی غلاظت اور آلودگی سے پاک اور صاف رکھا جائے۔جس طرح سے مساجد کو آلودگی سے صاف رکھنے کا حکم ہے اسی طرح سے اسے اعمال سیہہ کا ارتکاب بھی ممنوع ہے۔اب اعمال سیہہ کیا ہیں ؟ تو اس سے مراد ہے کہ جھوٹ،منافقت،چغلی اور غیبت سے اجتناب کیا جائے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ اصحاب ِ رسول مساجد کو صاف رکھنے کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ایک دفعہ تمیم الداری شام سے مدینہ آئے تو قندیلیں،زیتون کا تیل،عمدہ بٹی ہوئی رسیاں بھی ساتھ لے کر آئے۔اتفاق سے جس دن وہ پہنچے خمیس کا دن تھا آنے والی رات جمعہ کی تھی ،عصر کے بعد انہوں نے اپنے غلام ابولزاد کو حکم دیا کہ ان رسیوں سے قندیلوں کو باندھ کر زیتون کا تیل ڈال کر ،بتیوں کو درست کر کے مغرب کے بعد انہیں جلا دیا جائے۔

حکم کی تعمیل کی گئی مسجد بقعہ نور ہو گئی ۔حضور اکرم ﷺ تشریف لائے تو پوچھا کہ یہ کس نے کیا ہے عرض کی گئی کہ تمیم الداری نے۔اس پر آقا ﷺ نے خوش ہو کر فرمایا کہ
”تو نے آج اسلام کو روشن کیا ہے اللہ تیری آخرت اور دنیا کو منور فرمائے“
مسجد کے احترام کے سلسلہ میں تاریخ اسلام سے چند اور واقعات پیش ہیں جن کا تذکرہ اس لئے ضروری ہے تاکہ نوجوان نسل کو پتہ چل سکے کہ اسلام میں اس عبادت گاہ کی کیا اہمیت ہے۔

اس مقدس مقام کو ماسوا عبادت کے کسی قسم کے فوٹو شوٹ یا ویڈیو کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔حضرت ابو ذر غفاری  سے مروی ہے کہ رسول معظم ﷺ نے فرمایا کہ”جو شخص اللہ کی رضا کے لئے مسجد بناتا ہے ،اگرچہ وہ پرندے کے گھونسلہ جتنی ہی کیوں نہ ہو،اللہ اس شخص کے لئے جنت میں گھر تعمیر فرماتا ہے“۔اسی طرح حضرت عثمان بن عفان  فرماتے ہیں کہ میں نے آقا ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص اللہ کی رضا کے لئے مسجد بناتا ہے ،اللہ اس کے لئے جنت میں گھر تعمیر فرماتا ہے“۔

ام المومنین بی بی عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ ”رسول اللہ ﷺ نے اس بات کا حکم دیا کہ محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں ان کی صفائی کی جائے اور انہیں معطر رکھا جائے“۔حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ”ایک عورت مسجد سے کوڑا کرکٹ اٹھایا کرتی تھی یعنی صفائی کیا کرتی تھی،اس کا انتقال ہو گیا ،اس کو دفن کردیا گیا،اس کے دفن ہونے کے بعد آپ ﷺ اس کی موت کی خبر ہوئی۔

جب آپ ﷺ کو پتہ چلا تو فرمانے لھے کہ جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو مجھے خبر کیا کرو۔پھر اس عورت کی نماز جنازہ پڑھائی اور فرمایا کہ ”میں نے اسے جنت میں دیکھا ہے کہ وہ مسجد میں سے کوڑا اٹھا رہی تھی“
یہ سب روایات اور احادیث ایسی تھیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد کا احترام اور اہمیت کیا ہے ۔اسلام تو مسجد کی طرف چل کر نماز پڑھنے کا بھی اجر عطا فرماتا ہے۔

حضرت زید بن ثابت  فرماتے ہیں کہ ”میں ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ پیدل چل رہا تھا ،ہم نماز کے لئے جا رہے تھے،حضور اکرم ﷺ چھوٹے چھوٹے قدم رکھ رہے تھے۔حضور اکرم ﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو ہم چھوٹے قدم کیوں اٹھا رہے ہیں تومیں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں،جس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک آدمی نماز کی کوشش میں ؛گا رہتا ہے وہ نماز میں ہی شمار ہوتا ہے۔


یہ تو ہے اسلام میں مسجد کی اہمیت اور اس کا احترام،جس کے بتانے کا مقصدیہ تھا کہ گذشتہ دنوں جو بلال سعید اور صبا قمر نے لاہور کی مشہور تاریخی وزیر خان مسجد میں ایک نکاح کے سین میں ناچ کی ویڈیو بنائی ہے اس پر پورا پاکستان ماتم کناں ہے کہ مسجد کے تقدس کو کیوں پامال کیا گیا۔اس عمل سے جہاں مسلمانوں کے دل دکھے ہیں وہاں ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہو گیا ہے جو کہہ رہا ہے کہ مسجد کو کثیرالمقاصد استعمال میں آپ ﷺ کے دور سے ہی استعمال کیا جانے لگا تھا۔

اس میں صبا قمر از خود شامل ہے کہ جس کا بیان ہے ہم نے صرف نکاح کے مناظر میں ایک ڈانس سین کو فلمایا ہے لیکن وہ بغیر میوزک کے تھا۔دوسری بات یہ کہ اس سارے عمل کے لئے انہوں نے محض تیس ہزار روپے کے عوض محکمہ اوقاف سے اجازت نامہ بھی حاصل کر رکھا تھا۔بالکل صحیح ہے کہ انہوں نے تمام قانونی تقاضے پورے کئے اور یقینا اس شوٹنگ کے دوران انتظامیہ کا ساتھ بھی ہوگا،کیونکہ ایسے کام انتظامیہ کے بغیر عمل میں نہیں آتے۔

سب درست مان بھی لیا جائے تو کیا قانون ،مذہب سے برتر ہے؟قانونی ذمہ داریاں کیا ہماری مذہبی واخلاقی ذمہ داریوں سے بڑی ہیں۔بالکل نہیں ہمیں بطور مسلمان اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو بھی سرانجام دینا ہے۔دونوں اداکار اور دیگر انتظامی امور چلانے والے ادارے تمام کے تمام پڑھے لکھے اور ذمہ دار لوگ تھے جنہہیں اپنی قانونی حدود کے ساتھ ساتھ اخلاقی دائرہ کار کا بھی پتہ تھا۔

تو پھر ایسا کیوں کیا گیا۔یہ ایک ایسا سوال ہے جسے حکومت وقت کو سلجھانے کے لئے قانون اور اخلاق کا استعمال کرتے ہوئے نتیجہ تک پہنچنا ہے تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے۔
ابھی ابھی میں نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہے کہ بلال سعید نے نہ صرف اپنے اس عمل پر قوم سے معافی مانگی ہے بلکہ ان ویڈیو شوٹ کو ڈیلیٹ کرنے اور آئندہ مساجد کے اس طرح سے استعمال نہ کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت اچھی بات ہے کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ہمیں بھی اپنا دل بڑا کر کے انہیں معاف کر دینا چاہئے کیونکہ یہ اللہ کا کام ہے اور ہمیں اللہ کے کاموں میں مداخلت کی ہرگز کوشش نہیں کرنا چاہئے۔لیکن ایسے ادارے جو کہ ایسے کام کو محض چند روپوں کی خاطر پروموٹ کرنے کے درپے ہیں انہیں حکومت کو چاہئے کہ قرار وقعی سزا دے تاکہ آئندہ کوئی ادارہ بھی ایسی حرکت نہ کرے۔کیونکہ عبادت گاہ کا مقصد صرف عبادت ہے نا کہ ویڈیو شوٹ اور تفریح کا مقام ہے۔اللہ ہم سب کو ہدائت عطا فرمائے۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :