سلام ٹیچر

اتوار 4 اکتوبر 2020

Musharraf Hazarvi

مشرف ہزاروی

پانچ اکتوبرکودنیابھرمیں اساتذہ کاعالمی دن منایاجاتاہے جس کامقصداساتذہ کی عظمت، اہمیت، کامیابیوں اورلازوال کاوشوں کوسلام پیش کرناہوتاہے اس کے لیے سرکاری وغیرسرکاری سطح پرتقریبات بھی منعقدکی جاتی ہیں اورمثالی اساتذہ کوتوصیفی اسنادواعزازات سے بھی نوازاجاتاہے۔یہ ہی کچھ وطن عزیزمیں بھی کیاجاتاھے لیکن ضرورت اس امرکی ہے کہ اقوام کی محض نقالی کے بجائے اپنے اسلاف اورتاریخ وثقافت سے جڑاجائے،معلم کی تکریم وتقدس کے حوالے سے اپنی اسلامی،سنہری وبے مثل تاریخی وابدی حقیقت جان کراسے عملی نمونہ بناکراقوام عالم کومسخرکیاجائے۔

الحمدللہ،ہم مسلمان ہیں اورہمارے پیارے نبی،خاتم النبیین،حضرت محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم، ہی ہمارے رول ماڈل ہیں کہ جن کے بارے میں کتاب ہدایت،قران مجیدمیں اللہ کریم کافرمان پاک ہے کہ''بے شک رسول اللہ،صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ یے'',یعنی انسانیت کی حقیقی کامیابی بلاشبہ محسسن انسانیت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسوہ حسنہ اورپیارے طریقوں پرعمل کرنے میں ہے جب کہ محبوب خدا،خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ والہ کافرمان عالیشان ہے کہ''انمابعثت معلما'',کہ''بے شک مجھے معلم بناکربھیجاگیاہے''۔

(جاری ہے)

اب عالم انسانیت کے لیے مقام غورہے کہ جومحبوب خداہیں،وجہ تخلیق کائنات ہیں،وہ خوداپنا''منصب'' معلم،تعلیم فرمارہے ہیں اس کے بعدتومعلم کے مقام ومرتبہ اوروسعت واہمیت کوبیان کرنے کے لیے دنیابھرکے فلسفیوں اوردانشوروں کی ہردلیل ییچ اورقطعی طورپربے وقعت ہے۔سو،منصب معلمی کی قدرومنزلت تویہیں سے واضح ہوگئی،اوراگرہم سمجھیں توذمہ داریوں کاتعین اوررہتی دنیاتک کے معلمین جے لیے''نصاب''اور''طریقے''بھی ہمارے لیے وضع شدہ ہیں جن کی اصل بنیاداورمنبع بلاشبہ قران وسنت پرمبنی افاقی تعلیمات ہی ہیں۔

اب رہی بات موجودہ دورکے معلم کے مقام اوراسے سلام پیش کرنے کی۔یہ بھی ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ موجودہ ترقی یافتہ اقوام بھی اسلامی ادوارحکومت کے وقت گھٹاٹوپ اندھیروں اورتاریکیوں کی گھاٹیوں کے مسافرجب کہ مسلمان قریباپوری دنیاپرحکمران تھے اوران دنوں ترقی یافتہ بالخصوص مغربی ویورپی اقوام نے حاصل کی یے وہ اسلامی تاریخ سے سبق حاصل کرکے اورنقل کرکے ہی حاصل کی ہے کیونکہ اسلام کی افاقی تعلیمات محض کتابی تعلیم کانام نہیں بلکہ یہ نسلوں کی زندگیاں بدلنے والی اورحقیقی ترقی کی معراج پرپہنچانے والی ہے اوربدقسمتی سے موجودہ دورمیں عالم اسلام اس لیے روبہ زوال اوراغیارکے تابع ہوکررہ گیاہے کہ ہم قران وسنت کی تعلیمات کوبھلابیٹھے،پھروہ معلم،معلم کیسے اوران کی تعلیمات کیاترقی یافتہ ومثالی معاشرے پروان چڑھاپائیں؟اکثرمعلمین اوردیگرلوگ بھی ہرجگہ شکوہ کناں رہتے ہیں کہ،استادکی کوئی قدرہی نہیں،معلم کاوہ پہلے والامقام ومرتبہ ہی نہیں،لوگ اڈتادکوعزت دینے کوتیارنہیں؟اس طرح کے گلے شکوے تسلسل کے ساتھ ہروقت زیربحث رہتے ہیں جنھیں سن کراس احقرنے ہمیشہ یہ کہاکہ،عزیزہم وطنو،معلم،ٹیچریااستادکی قدرومنزلت کے لییاپنے ملک میں یااقوام عالم بالخصوص عالم اسلام کاجائزہ لیں،معلمین کی غالب اکثریت اپنے''مقام''سے ہٹی اورسرکی ہوئی معلوم ہوگی،معلم کامقام تومعلم انسانیت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نسبت،تعلق اوران کی حقیقی تقلیدکے صدقے یے،جسے مدنظررکھ کردورحاضرکے معلم کواپناجائزہ لیناچاہئیے،ہرلحظہ اپنامحاسبہ کرتے رہناچاہئیے کہ کیا،جن کی زندگی انسانیت کے لیے بہترین نمونہ اورجن کافرمان ذیشان کہ''مجھے معلم بناکربھیجاگیا''،کیاان بہترین طریقوں اور''منصب''کی پیروی کے تقاضے دورحاضرکے معلم نے پورے کرلیے؟تقاضائے معلمی بدرجہ اتم تومحض اللہ کے خاص کرم اورمعلم انسانیت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خصوصی نظرکرم سے ہی عطاہوسکتے ہیں البتہ اوصاف معلم اپنانے کی ہردم پرخلوص سعی سے بھی بلاشبہ مقام معلم کی برکات سے یقینافیض یاب ہواجاسکتایے صرف جہدمسلسل فرض ہے جب کہ دورحاضرکامعلم محض ڈگری یافتہ اورپیسہ بنانے کی مشین بن کرحقیقی منصب سے کہیں دورنکل گیاہے تواللہ کریم نے اس عظیم نسبت کاکمال بھی ایسے معلمین سے چھین لیاہے۔

معاشرے میں جواکثربے توقیری نظراتی یے اس کی بنیادی وجہ یہ ہی یے وگرنہ جومعلمین اس نسبت اورمنصب کے تقاضوں اورنازک ذمہ داریوں سے واقف ہیں اورانھیں بجاطورپرنبھابھی رہے ہیں وہ قابل فخرمعلمین اج بھی ہرجگہ عزت وتکریم سے نوازے جاتے ییں،طلبہ،والدین اورافرادمعاشرہ میں ایسے معلمین اج بھی بے پناہ قدرومنزلت اورخاص مقام کے حامل ہیں۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب ہم اپنی اسلامی تعلیمات،تاریخ اوراجلی روایات سے ہٹ کردیگراقوام کی نقالی میں عالمی یوم اساتذہ مناریے ہوتے ییں تب بھی ہم جوحقیقی،مخلص اورشاندارخدمات کے حامل مثالی معلمین ہیں انھیں اس دن جی مناسبت سے منعقدہ بناوٹی اوربے کیف سلام ٹیچرڈے تقریبات میں بھی بری طرح نظراندازکرکے ایسے نام نہاداساتذہ کو''اعزازات''سے نوازنے کے''جرم''کرتے ہیں کہ جن کی پاداش میں اوراپنے حقیقی رول ماڈل،ہیروزکی عظمتوں کوتسلیم نہ کرنے کی سزایہ ملتی ہے جوابھی مل رہی ہے،معاشرتی بے توقیری،قومی زوال،اقوام عالم کی غلامی،اورتباہی وبربادی۔

اس لیے ضرورت اس امرکی ہے کہ پہلے تومعلمین اپنے اپ کواس عظیم منصب کے تقاضوں سے ہم اہنگ کرکے باعمل وقابل تقلیدبنیں تاکہ اللہ کریم خودہی اس منصب کی حقیقی ودائمی عظمت ان معلمین کے تلامذہ اوردیگرافرادمعاشرہ کے دلوں میں ڈال دیں جوبلاشبہ دائمی وحقیقی عزت ہوگی،اورپھرملک وقوم کی حقیقی تعمیربھی ہوگی،بصورت دیگرمعلمین کی حقیقی عزت اوران کے دم قدم وقابل عمل کردارکے بجائے محض دن منانے،تقریبات کے ڈھونگ رچانے اورمن پسندوں کو''سلام ٹیچرڈے''کے''بے وقعت''اعزازات سے ہرگزمعلم کی عزت بحال ہوگی اورنہ مقام ومرتبہ،اورنہ ہی یہ حقیقی قدرومنزلت''استادکوعزت دو''کے بلندبانگ اورکھوکھلے نعروں،تقریروں اورتحریکوں سے بحال ہو سکے گی،سو،اے میری قوم کے معلمین اکرام،خدارا،اپنے حقیقی منصب اورذمہ داریوں سے جڑجاؤتوکوئی وجہ نہیں کہ ہردل سے اپ کے لیے سلام اورمحبت کیجذبات موجزن نہ ہوں،صرف اپنے محاسبے اورمنصب معلم کے تقاضوں اورذمہ داریوں کے فہم وادراک کی ضرورت ہے،کیونکہ قابل تقلیداورمثالی معلمین ہروقت،ہرپل اورہرلحظہ،دل کی گہرائیوں سے ہرایک سے سلام عقیدت پاتے ییں،سو،سلام عقیدت،اساتذہ اکرام،اپکی عظمت کوسلام!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :