محکمہ تعلیم خیبرپختونخواکے زیر اہتمام صوبہ بھر کے سرکاری مڈل،ہائی و ہائرسکینڈری سکولوں میں سالانہ کھیلوں کے مقابلوں کا پہلاراؤنڈشروع ہو گیا ہے جس میں ضلعی چیمئین بننے والے ہائی و ہائرسکینڈری سکولز دوسرے راؤنڈمیں بین الاضلاعی مقابلوں میں اپنے اپنے اضلاع کی نمائندگی کرکے ناقابل تسخیرکارکردگی کی صورت میں انٹرریجنل(صوبائی) مقابلوں کے لیے اہل قرارپائیں گے۔
تھوڑاپیچھے جائیں تو کئی سال پہلے تک خیبرپختونخوامیں دہشت گردی کے مہیب سائے اتنے گہرے ہو چکے تھے کہ برسراقتدارحکومت نے امن و امان کی ابترصورتحال کے باعث کچھ عرصے کے لیے سکولز ٹورنامنٹ کے صوبائی مقابلے بھی موخرکیے رکھے تاہم پاک فوج اورپولیس کے ساتھ ساتھ دیگراسٹیک ہولڈرزکی مثالی جرات اورقربانیوں کے باعث وطن عزیزبالخصوص خیبرپختونخوامیں امن و امان کی صورتحال بہت بہترہو چکی ہے جس کے نتیجے میں اب گذشتہ کئی سالوں سے سکولزمقابلے تواترسے منعقدہو رہے ہیں جس میں حصہ لے کر ہزاروں بچے اوربچیاں بوائزوگرلزالگ الگ مقابلوں میں اپنی خدادادصلاحیتوں کا مظاہرہ کر کے اپنے علاقوں،اساتذہ اکرام اورسربراہان ادارہ کا نام خوب روشن کر رہے ہیں ۔
(جاری ہے)
بلا شبہ تعلیم کسی بھی ملک وقوم کی ہمہ جہت ترقی میں کلیدی کردارکی حامل ہے جس کی اہمیت سے کسی صورت انکارممکن نہیں تاہم بچوں کو صرف نصابی کتب تک محدودرکھنے اورہم نصابی وکھیل کودکی سرگرمیوں کے مواقع وماحول سے دوررکھناان کی شخصیت کو مسخ کرنے اوران کی فطری صلاحیتوں کو دبانے اوریکسرختم کرنے کے مترادف ہے یہ ہی وجہ ہے کہ محکمہ تعلیم طلباء و طالبات کی ہمہ جہت نشوونمااورکردارسازی کے لیے تعلیمی اداروں کے وضع شدہ روزانہ کے نظام الاوقات میں مارننگ اسمبلی،تعلیم جسمانی کے دورانیے اورہفتہ واروماہانہ بزم ادب کاانعقادیقینی بناتا ہے جس کے نتیجے میں طلبہ و طالبات نہ صرف سکولز مقابلوں کے لیے خوب تیارہوتے ہیں بلکہ ان مثبت سرگرمیوں کے حقیقی ثمرات سمیٹ کر اپنی عملی زندگیوں میں بھی کامیابیاں حاصل کرتے ہیں جس سے ان میں قائدانہ صلاحیتیں بدرجہ اتم پروان چڑھتی ہیں جو انھیں دوسروں سے ممتازکرتی ہیں۔
علاوہ ازیں معماران قوم کے ہاتھوں ایسے تراشیدہ ہیرے ہرجگہ اپنی وقعت و اہمیت منواتے اورملک و ملت کے لیے بھی مثالی کرداراداکرتے ہیں ۔دوسری طرف ان سکولز مقابلوں اورتعلیمی اداروں میں ہم نصابی سرگرمیوں کے ضمن میں ایسی حوصلہ شکن مثالیں اورغیرموذوں رویے بھی دیکھنے میں آتے ہیں جوزیرتعلیم ان بچوں کی حق تلفی و ناانصافی پر مبنی ہوتے ہیں تاہم امسال محکمہ تعلیم کے مجازحکام کی طرف سے یہ ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں کہ جوسکولزسربراہان ضلعی مقابلوں میں اپنے اداروں میں زیرتعلیم طلبہ کی شرکت یقینی نہیں بنائیں گے اورانھیں ہم نصابی سرگرمیوں اورسکولز مقابلوں میں حصہ لینے کے مواقع فراہم نہیں کریں گے ان کے خلاف تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے گی جوبجاطورپرمتعلقہ حکام کا مستحسن فیصلہ ہے مگراس پر عملدرآمدبھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ سکولوں اوربچوں کی ان مقابلوں میں شرکت یقینی بنائی جا سکے۔
یہاں یہ نقطہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت اگر سرکاری تعلیمی اداروں پر اربوں روپے خرچ کر رہی ہے تو اس کا مرکزومحورصرف بچہ ہے وہ بچہ جو ان سرکاری سکولوں میں تعلیم و شعورکے حصول کے لیے آیاہے اب اسے سنبھالنا،اس کی نگہداشت کرنا اوراسے دینی و دنیاوی ہر لحاظ سے بہترین اندازمیں تیارکرنامتعلقہ سکولوں کے سربراہان و اساتذہ اکرام کی اولین ذمہ داری ہے جب کہ ان ہی بچوں کی شخصیت وکردارسازی کے لیے حکومت نے دیگرمضامین کے اساتذہ اکرام کے علاوہ تعلیم جسمانی کے اساتذہ بھی تعینات کر رکھے ہیں جنھیں عرف عام میں پی ٹی آئی کہتے ہیں یہ اساتذہ عام طورپراسمبلی اورتعلیم جسمانی کی تیاریوں اورمہارتوں میں بچوں کی بھرپورمعانت وراہنمائی کرتے ہیں بلکہ اب تو ایک قدم اورآگے بڑھ کرگذشتہ تین چارسالوں سے صوبائی حکومت نے سکولوں کو سپورٹس کے سامان کے لیے ایک ایک لاکھ روپے بھی دینے شروع کر رکھے ہیں تا کہ جن سکولوں میں کھیلوں کا سامان وسہولیات نہیں انھیں بھی برابری کے مواقع فراہم کیے جائیں تا کہ وہ ہم نصابی سرگرمیوں اورتعلیم جسمانی کی مہارتوں سے محروم نہ رہ جائیں تاہم اس کے باوجوداساتذہ اکرام اوربعض سربراہان ادارہ بچوں کی سکولز مقابلوں اورہم نصابی سرگرمیوں میں شرکت یقینی بنانے میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں اس کی وجوہات جو بھی ہوں بہرحال یہ سرکاری سکول میں زیرتعلیم غریب بچوں سے صریحاناانصافی اوران کی حق تلفی ہے۔
اب کیسے اور کس طرح ممکن بنایاجاسکتا ہے اس کے لیے متعلقہ سربراہان واساتذہ اس عمل میں شریک اسٹیک ہولڈرزکی معاونت سے ایک مربوط وموذوں لائحہ عمل طے کر سکتے ہیں تا کہ بچے ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے محروم نہ رہیں ۔یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ایسے ایسے سکولز بھی موجودہیں کہ جن کے محنتی ومخلص سربراہان و اساتذہ اکرام کی شبانہ روز کاوشوں اورذاتی دلچسپی سے ان کے سکول نصابی اورہم نصابی سرگرمیوں دونوں میں ادارے کا نام خوب روشن کرتے ہیں ۔
اس لیے محض اس جوازکے تحت بچوں کو سکولز مقابلوں یا ہم نصابی سرگرمیوں میں شرکت سے محروم نہیں کیاجاسکتا کہ ان کی پڑھائی متاثرہو گی،سوال پھر یہ ہی ہے کہ ایسی سوچ کے مقابل جو دوسرے ادارے ہیں جن کے بچے نصابی اورہم نصابی دونوں سرگرمیوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں دونوں میں نام روشن کرنے والے تعلیمی اداروں کے سربراہان اوراساتذہ زیادہ اچھاانتظام و انصرام کرتے ہیں کہ بچے کی نہ پڑھائی متاثرہوتی ہے اورنہ یہ بچے شخصیت سازی سے محروم رہتے ہیں ۔
اس ساری صورتحال کے باوجود قابل غورامریہ ہے کہ سکولز مقابلوں کے دوران تمام اسٹیک ہولڈرزیہ نقطہ بہرصورت ملحوظ رکھیں کہ ان مقابلوں کامقصدبعض بچوں کی جیت اوربعض کی ہارہرگزنہیں،بلکہ اس سوچ کو بچوں اوراساتذہ سب کے اذہان سے نکالناہے اوریہ قابل قدرسوچ پروان چڑھانی ہے کہ یہ بچے سب کے بچے ہیں ان مقابلوں میں حصہ لینے والے ہر بچے کی بھرپورحوصلہ افزائی کی جائے اورعام طورپرصرف اورصرف جیتنے اورسکول و بچوں کومحض جتوانے کے لیے بعض اوقات اساتذہ اکرام منفی رویوں کامظاہرہ کر جاتے ہیں اس سے بازرہنے اوربچوں کو بھی بازرکھنے کی ضرورت ہے کہ سکولز مقابلوں میں بچے اگران سکولز گیمزکے حقیقی مقاصدحاصل کر گئے تو یہ سب کے سب حقیقی کامیابی اوراصل مقصدمیں کامیابی حاصل کرجائیں گے ۔
درحقیقت یہ ہی تو سب سے بڑی کامیابی ہے کہ ہمارے بچے چھوٹے بڑے کی تمیز،خوش خلقی،باہمی احترام،اپنے والدین و اساتذہ اورہم جماعتوں کا احترام کرناسیکھ جائیں،ان میں بھائی چارہ پیداہوجائے،وہ بظاہرکسی ناکامی میں بھی غم و غصہ،حسدوبغض یاعدم برداشت کاشکارہونے کے بجائے ،ان مقابلوں کے انعقادکے مقاصدپیش نظررکھتے ہوئے اپنی ان وقتی وظاہری ناکامیوں کے اسباب پر غورکریں اوراپنی خامیاں تلاش کر کے متعلقہ شعبوں اورشخصیت و کردارمیں بہتری لائیں،اسی طرح کامیابیوں کی صورت میں بھی آپے سے باہرنہ ہوں اورنہ ہی اپنی کامیابی کی خوشی ایسے منائیں کہ جس سے مدمقابل ٹیم،بچوں یااساتذہ اکرام کی دل آزاری یادوسروں کو تکلیف ہو،کسی بھی میچ یامقابلے میں وقتی ناکامی پر دلبرداشتہ یا کم ہمتی کا شکارنہ ہوں،ٹیم ورک پیداہو،قائدانہ صلاحیتیں نکھرکرسامنے آئیں توکہاجاسکتاہے کہ منتظمین اور یہ مقابلے اپنے مقاصدبطریق احسن حاصل کر رہے ہیں جوان کی حقیقی کامیابی تصورہو گی کہ تعلیمی اداروں میں ایسی ہم نصابی سرگرمیوں کے انعقادکا بنیادی مقصدہی طلباء و طالبات کی شخصیت وکردارسازی اورانھیں ارفع واعلیٰ اوصاف سے متصف کرناہے تا کہ معاشرہ میں ایسے حلیم الطبع،ملنساراورہمدردومحب وطن افرادکی تعدادمیں اضافہ ہوجس سے معاشرے میں موجودگھٹن ،تنگ نظری ،منافقت اورمنافرانہ رویوں کا خاتمہ ہواورہرسومحبتیں ہی محبتیں بکھری نظرآئیں،کاش ہم اپنی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے درست سمت میں قدم بڑھاسکیں ،ایساقدم جس سے ملک وملت کوترقی،قرار،تسکین اورکردارنصیب ہو،اے کاش!!!۔
۔