وکلاء کی غنڈہ گردی سے حکومتی بے بسی تک!!!

جمعرات 12 دسمبر 2019

Musharraf Hazarvi

مشرف ہزاروی

ہیں تووکلاء ہی مگریقین نہیں آرہاکہ یہ وکلاء ہیں جو لاہورمیں امراض قلب کے ہسپتال پر چڑھائی کر کے مریضوں اورڈاکٹروں سمیت جو بھی سامنے آرہاہے اسے تشددکا نشانہ بنارہے ہیں ،ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں ،گاڑیاں جلارہے ہیں اورزندگی و موت کی کشمکش میں مبتلادل کے مریضوں کولگے آکسیجن ماسک اتارپھینک کر دکھی انسانیت کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں ،دیکھنے والوں نے دیکھا اورپوری دنیانے دیکھاکہ مظلوموں کے لیے قانون و انصاف کی جنگ لڑنے والوں نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ظلم وتشددکی ایسی بدترین تاریخ رقم کی کہ جس نے پوری انسانیت کو شرماکررکھ دیا،ایسے روح فرسامناظرتودہشت گردی کی وارداتوں میں ہی دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں سرعام ظلم و تشددکیاجارہا ہو، اورحملہ کے بعدہسپتال میں موجودہرکوئی اپنی اپنی جان بچانے کے جتن کررہاتھا،پہلے سے ہی زندگی وموت کی کشمکش میں مبتلادل کے مریضوں اوران کے عزیزوں کے خوف زدہ چہرے کچھ ایسی کربناک کہانی بیان کر رہے تھے جسے سن کر سب ہی کی آنکھیں نم ہو گئیں، اس بدترین واقعے میں کتنی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں؟دوچاریاچھ ؟مختلف اعدادوشمارمیڈیامیں رپورٹ ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

بہرحال اسلام تو کہتاہے کہ جس نے ایک جان بچائی گویااس نے پوری انسانیت کو بچایااورجس نے ایک جان کا قتل کیاگویااس نے پوری انسانیت کاقتل کیا،اب یہ تو ہم پڑھے لکھوں کوسوچناہے کہ ہم کرکیارہے ہیں ،انسانیت کا قتل کر رہے ہیں یا اسے بچارہے ہیں،پھرپڑھ لکھ کراوراعلیٰ تعلیم حاصل کر کے بھی ہمارے رویے عدم برداشت سے لیس اورجارحانہ و متشددانہ ہی رہتے ہیں توہمیں یہ سوچناہوگاکہ وہ جاہل تو ہم سے بدرجہابہترہیں جن کے ہاتھوں کسی کا سکون غارت نہیں ہورہا اورجوکسی بھی فردیاادارے کو نقصان نہیں پہنچارہے ۔

اس وقت سب سے زیادہ نازک ذمہ داری خودوکلاء اوروکلاء تنظیموں پر عائدہوتی ہے کہ گذشتہ کچھ عرصہ سے وکلاء کے ہاتھوں پولیس،عدلیہ اورعام شہری جوسرعام تشددکا نشانہ بننے لگے ہیں اسی افسوس ناک صورتحال کے تدارک میں ناکامی سے ہی حالیہ شرمناک واقعے نے جنم لیااورپوری قوم کودنیاکے سامنے شرمسارکیاہے۔ اگرپہلے واقعات کے بعدکچھ ایسی منصوبہ بندی کرلی جاتی یا غنڈہ گردی وقانون شکنی کے مرتکب عناصرکو قرارواقعی سزائیں دے دی جاتیں تو تب بھی ایسے واقعات کی روک تھام میں کمی لائی جاسکتی تھی مگرمتعلقہ اسٹیک ہولڈرزسمیت قانون و انصاف کے رکھوالوں اورحکومتی رٹ برقراررکھنے ولوں نے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیاجس کے نتیجے میں سرعام قانون سے کھلواڑپر مبنی روح فرساواقعات تھمنے میں ہی نہیں آرہے ۔

گذشتہ روز لاہورمیں پیش آنے والے ظلم و تشددکے واقعہ میں بھی حکومتی رٹ ایک سوالیہ نشان بنی رہی ،صاف نظرآرہاہے کہ وکلاء کے جتھوں کے یتھے ہسپتال پرحملے کے لیے پیش قدمی کر رہے ہیں مگرپولیس اورقانون نافذکرنے والے خاموش تماشائی بنے رہے ،ڈاکٹروں اورمریضوں کے ساتھ املاک کو نقصان سے بچانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جس کے نتیجے میں ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان ہواجس کی ذمہ داری بہرحال حکومت اورحکومتی اداروں پر ہی عائدہوتی ہے جس سے عوام میں عدم تحفظ کا پیداہونابھی فطری امرہے دوسری طرف حکومتی بے بسی بھی آشکارہوئی جو خووحکومت کے لیے کسی بدنامی اورشرمندگی سے کم نہیں بلکہ جس طرح صوبائی وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان پر وکلاء نے حملہ کیااورتشددکانشانہ بنایااگرچہ انتہائی افسوس ناک ہے مگراس سے بھی جگ ہنسائی تو حکومت کی ہی ہوئی کہ جو حکومت اپنے وزیرکوتحفظ فراہم نہیں کر سکتی وہ شہریوں کو کیاخاک تحفظ فراہم کرے گی؟۔

بتایاجارہا ہے کہ وکلاء اورڈاکٹروں کے مابین تصادم کی وجہ مبینہ طورپروکلاء کا لائن میں لگے بغیردوائی حاصل کرناتھاجس سے جھگڑاشروع ہوابعدازاں صلح صفائی بھی ہوئی مگرپھرایک پرانی ویڈیووائرل ہونے سے وکلاء مشتعل ہوئے اورہسپتال پر دھاوابول کر سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیا۔اگروکلاء اورڈاکٹروں کے مابین جھگڑے کی بنیادی وجہ یہ ہی ہے جو بیان کی جا رہی ہے توپھربھی وکلاء کو جتھوں کی شکل میں دل کے مریضوں کے ہسپتال جیسی حساس جگہ پر حملہ کرنے کا بالکل کوئی جوازنہیں تھاوہ اس صورتحال پر قانون نافذکرنے والے اداروں یاارباب حکومت کی مددسے بھی بخوبی قابوپاسکتے تھے مگروہ خودہی مدعی،خودہی منصف اورخودہی جج بننے کے مصداق ہسپتال پر حملہ آورہوگئے جسے کسی طوربھی جائزاوردرست اقدام قرارنہیں دیاجاسکتا۔

سوچنے اورغورکرنے کی بات ہے کہ بعض داکٹروں اوربعض وکلاء کے جھگڑے میں سارے وکلاء کو لشکرکشی کی کیاضرورت تھی؟کیاانھیں علم نہیں تھا کہ اس طرح کتنے بے گناہ لوگ اورجاں بلب مریض موت کے منہ میں جا سکتے ہیں ؟پھرڈاکٹروں کا غصہ ہسپتال،املاک اورمریضوں پرنکالناکیسے جائزاقدام ہے؟حیرت و افسوس کا امر تو یہ بھی ہے کہ واقعے کے اگلے روز بھی لاہورہائی کورٹ نے مکمل ہڑتال کی کال دے دی ہے ،افسوس ہے،ماراماری اورظلم و تشددبھی وکلاء کے جتھوں نے کیا اوراحتجاج بھی خودہی کر رہے ہیں گویاوکلاء بالکل معصوم اوربے قصورہیں اوران پر ہسپتال کے مریضوں اوران کے لواحقین نے ظلم ڈھایاہے ،جوانھیں ظلم وتشددکانشانہ بنایاگیا،ہسپتال میں کیا ہوا،کس نے کسے تشددوظلم کا نشانہ بنایا،سی سی ٹی وی کیمروں میں سب محفوظ ہے جسے الیکٹرانک میڈیاپہلے ہی آن ائیرکرچکاہے اس میں ظلم و تشددکرنے والے اورہسپتال پر ہلہ بولنے والے صاف نظرآرہے ہیں پھرلاہورہائی کورٹ کی ہڑتال کی کال سمجھ سے باہرہے ۔

یقیناہسپتال میں دنگافساداورپرتشددمظاہروں میں شریک وکلاء گرفتاربھی کیے گئے ہیں اوران کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک بھی ہوگاکسی بے گناہ کو توسزانہیں دی جا سکتی اورنہ دینی چاہییے البتہ جن کے قصوراورسرعام قانون شکنی کیمروں کی آنکھ نے محفوظ کر لی ہے انھیں تو قانون کے مطابق سزاضرورملنی چاہییے کیونکہ گذشتہ روزپیش آنے والے واقعے کی روک تھام اسی صورت ہو سکتی تھی کہ اس سے پہلے جہاں جہاں وکلاء نے قانون ہاتھ میں لیاہے اگرانھیں قانون کے مطابق سزاملتی تو یہ لوگ محتاط ہوتے اوراتنی بے جگری و بے خوفی سے ہسپتال میں ظلم و تشددکا بازارگرم نہ کرتے ۔

یہ افسوس ناک واقعہ سستے وفوری انصاف بہم پہنچانے کی دعویدارحکومت کے لیے ٹیسٹ کیس ہے کہ وہ کسی بھی مصلحت یااسے سیاسی رنگ دینے کے بجائے اس سرعام غنڈہ گرد ی کی فوری اورغیرجانبدارانہ تحقیقات کرواکرملوث عناصرکو نشان عبرت بنائے اوراگرحکومت ایساکرنے سے قاصررہتی ہے توپھراسے سستے و فوری انصاف اورغریب عوام کا نام نہادمسیحابننے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں کہ اگروہ ظالموں کو کیفرکردارتک پہنچاکرمظلوموں کو انصاف ہی نہیں دلواسکتی تو پھرانصاف کی تحریک اورحکومت پر بڑاسوالیہ نشان ثبت ہوجائے گاجونااہلی،بدنامی اورجگ ہنسائی کا ایسابدنماداغ ثابت ہو گا جسے ذمہ داران کبھی دھونہیں سکیں گے کیونک اس کی دھلائی کا کوئی منجن کہیں دستیاب ہی نہیں اور اس کا دھوون صرف اورصرف انصاف ہی ہوگا،امراض قلب لاہورپرحملہ کرنے والوں کابے لاگ احتساب،جوپوری قوم کو نظربھی آئے!!!یہاں ریاست مدینہ،ریاست مدینہ کی رٹ لگانے والے حکمرانوں کی توجہ کے لیے موجودہ افسوس ناک صورتحال کے تناظرمیں ریاست مدینہ کے والی اورنبی آخرالزماں ﷺ کے ایک فرمان عالیشان کا تذکرہ بے حدضروری ہے تا کہ اس پر عمل کر کے حکمران ریاست مدینہ کے تقاضوں کو عملی شکل دے سکیں ،آپﷺ نکے فرمان کا مفہوم ہے کہ ،پہلی قومیں اسی لیے تباہ ہوئیں کہ اگران میں کوئی طاقتورجرم کرتاتوچھوڑدیاجاتااورکوئی غریب جرم کرتے پکڑاجاتاتواسے سزادی جاتی،پھرفرمایااگرفاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹ دیے جاتے،۔

وطن عزیزکے عمومی حالات کامشاہدہ کرنے سے صورتحال صاف نظرآنے لگتی ہے اسی لیے مقتدرطبقات کی توجہ دلائی گئی ہے کہ جرم کرنے والاامیرہویاغریب سب کے ساتھ یکساں سلوک کیاجائے تب قانون و انصاف کا بول بالاہوگابصورت دیگراسی طرح افرادمعاشرہ کی ہرمحفل میں یہ ہی فقرہ سننے کو ملتارہے ھاجو مل رہا ہے یہاں قانون صرف غریب کے لیے ہی رہ گیاہے!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :