غلط فیصلے

جمعہ 16 اکتوبر 2020

Musharraf Hazarvi

مشرف ہزاروی

روزنامہ،جیوہزارہ بحیثیت جائنٹ ایڈیٹر جائن کرنے سے پہلے راقم متعددعلاقائی و قومی موقر روزناموں اورخبررساں اداروں کے لیے بحیثیت رپورٹراورکالم نگارصحافتی خدمات کی انجام دہی پر ماموررہا۔قریباچارماہ قبل ہزارہ کے سینئیرصحافی اورروزنامہ جیوہزارہ ہری پور کے ایڈیٹرملک محمداقبال کے توسط سے یہ نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کاموقع ملا۔

ہمیشہ کی طرح اس صحافتی ادارے میں بھی حق وانصاف اورعوامی حقوق کے تحفط کے لیے اپنی مقدوربھرکاوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔یہاں اس ادارے کی خاص بات جس نے مجھے اپیل کیا کہ عام آدمی کے مسائل کوترجیحی بنیادوں پر اجاگرکریں ۔چونکہ اپناتومشن ہی روزاول سے الحمدللہ کمزور،مظلوم اورپسے ہوئے طبقے کی آوازبننے کی ہرممکن سعی کرناہے ۔

(جاری ہے)

گذشتہ کچھ عرصے سے بعض ناگزیروجوہات و مصروفیات کے باعث ’عوامی کالم‘کے توسط سے قارئین سے قلمی ملاقاتوں اورمختلف موضوعات پر اظہارخیال کا سلسلہ منقطع رہاتاہم گذشتہ چنددنوں میں دوچارواقعات ہری پور میں ایسے رونماہوئے جنھوں نے قلمی اظہارخیال پر مجبورکیا۔

ایک ایشوتوکوروناوائرس کے دوران تعلیمی تعطل اورنجی سکولوں کی فیسوں کا رہا۔جس کے بارے میں حکومتی ادارے پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹیPSRA)نے بھی ہدایات جاری کی تھیں اوروالدین کو دس فیصڈ اوربیس فیصدکے حساب سے فیس میں رعایت بھی دی گئی تھی ۔اگرچہ یہ رعایت اس عاجز کی رائے میں معقول نہیں تھی اس پر حکومت کو ضرورنظرثانی کر کے والدین کو بوجھ کم کرنے کی ضرورت تھی جوحکومتی غفلت کی نظرہوئی اورجس سے یہ تاثرابھراکہ حکومت اورریگولیٹری اتھارٹی کاجھکاؤپرائیویٹ سیکٹرکی طرف ہے جس سے والدین و دیگر حلقے غلط فہمیوں کا شکاربھی ہوئے کیونکہ ہوسکتاہے ہے کہ یہ جھکاؤنہ رہاہولیکن ریلیف کے لیے حکومتی اقدامات نہ ہونے سے بہرحال یہ تاثرگیاجسے ٹھوس اقدامات سے زائل کرنے اورکوروناوباء کے دوران جن والدین کے کاروباراورکام دھندے متاثرہوئے ان کی مجبوریوں کا احساس ضرورکرناچاہییے تھا۔

دوسری طرف جس وقت حکومت نجی سکولوں کی فیس میں دس اوربیس فیصدکی رعایت کااعلان کر چکی تھی اس وقت والدین کی طرف سے بھرپور احتجاج اورآوازبلندکرنے کی ضرورت تھی جو اس وقت تودیکھنے میں نہیں آئی البتہ بعدازاں ابھی تک شوروغوگایہ ہے کہ کوروناپیریڈکی ساری فیسیں مکمل طورپرمعاف کردی جائیں جسے صائب اورقرین انصاف مطالبہ ہرگزاس لیے قرارنہیں دیاجاسکتاکہ اگروالدین متاثرہوئے ہیں تو سکول مالکان بھی متاثرہوئے ہیں ۔

سکول مالکان کی اکثریت کرائے کی عمارتوں میں ادارے چلارہی ہے جن پر تدریسی و غیرتدریسی ملازمین کی تنخواہیں،یوٹیلیٹی بلزاوردیگر اخراجات بھی اٹھتے ہیں جو ظاہرہیان مالکان نے زیرتعلیم بچوں سے حاصل شدہ فیسوں سے ہی پورے کرنے ہوتے ہیں ۔ایسے نجی تعلیمی اداروں کا شائدانگلیوں پر شمارکرنابھی مشکل ہو جوکوروناپیریڈکے تمام تر اخراجات کی ازخودادائیگی کے متحمل ہوں اس لیے اس ایشوکاقابل قبول اورمنصفانہ حل یہ ہے کہ جووالدین متاثرہوئے ہیں ان کے بچوں کی فیسیں معاف کی جائیں اورجن کے کام کاروبارمتاثرنہیں ہوئے وہ فیسیں اداکریں تاکہ دونوں طرف کے متاثرین کا کام چلتارہے اورباہمی تعاون سے مسئلہ حل ہوجائے۔

کیونکہ راقم نے اس کوروناپیریڈکے دوران متعددچھوٹے اوردرمیانے درجے کے متعددسکول مالکان کو مجبوری کے عالم میں اپنی دال روٹی کے لیے بھی کام تلاش کرتے دیکھاہے ۔اس لیے کہ بلڈنگ مالکان تو ان سے چھ ماہ کے کرائے مانگ رہے ہیں اورانھوں نے سکول سٹاف کو تنخواہیں اوریوٹیلیٹی بلزبھی ہرصورت اداکرنے ہیں ۔یہ معاملہ ابھی تک پھنساہواہے۔اس پر طرفہ تماشایہ کہ ڈپٹی کمشنرہری پورنے اپنے آفیشل پیج پر یہ لکھ کر لگادیاہے کہ بچے کو سکول سرٹیفیکیٹ کے بغیرسکول میں داخلہ دیاجائے کیونکہ داخلہ نہ دینابنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی ہے۔

اسی طرح کا ایک صوتی پیغام ڈی ای او زنانہ ہری پور کی طرف سے بھی گردش میں رہالیکن اصل مسئلہ قانون کی عملداری کا ہے کہ محکمہ تعلیم کاکوئی قانون اورضابطہ بغیرسرٹیفیکیٹ بچوں کو داخلہ دینے کی راہنمائی نہیں کرتااورماہرین تعلیم بھی اسے قانونی ضابطے کی خلاف ورزی قراردے رہے ہیں کہ اس سے مستقبل قریب میں پھربچے اوروالدین کے لیے مسائل کھڑے ہوں گے ۔

اس ہدایت نامے کے بعدخدشہ ہے کہ جن والدین کی کوروناپیریڈیا اس سے پہلے کی بھی فیسیں بقایاہیں وہ دوسرے اوربالخسوص سرکاری سکولوں کا رخ کریں گے جس سے بعدکی قانونی ودیگرپیچیدگیوں کے علاوہ ان سکول مالکان کو بھی مزیدنقصان ہوگاجن کے بقایاجات ڈوب جائیں گے اس لیے یہ متنازعہ اورغلط فیصلہ کرنے کے بجائے متعلقہ ذمہ دارحکام متاثرہ والدین کا یہ حل نکالتے کہ بعدازتحقیق واقعی متاثرہ والدین کو نجی سکولزمالکان لازمی ریلیف دیں اوردوسرے وہ اگرکوروناپیریڈکی فیس چھڑوابھی رہے ہیں تو اس امر کو یقینی بنائیں کہ کوروناسے پہلے کے جن والدین کے نجی سکولوں کے بقایاجات ہیں ان کی ادائیگی کے لیے بھی انھیں کوئی حکمت عملی وضع کرنے کا پابندبناتے تا کہ دونوں طرف انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکتے ۔

اس انتظامی فیصلے سے شائدوہ والدین جنھوں نے فیسیں اداکرنی ہیں یاسرپرست تواپنے ذاتی مفادکے لیے تو خوش آئند قراردے رہے ہوں گے مگراس فیصلے سے تعلیمی اورباشعورحلقوں میں شدیدبے چینی پھیلی ہے کیونکہ وہ ضلع کے ذمہ دارانتظامی افسرسے اس قسم کے غیرذمہ دارانہ فیصلے کی توقع ہرگزنہیں کر رہے تھے مگرافسوس یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے کسی ذمہ داروزیر،مشیر،سیکرٹری اورچیف سیکرٹری نے اس افسوس ناک صورتحال کا نوٹس تاحال نہیں لیااورتعلیمی اداروں کی تنظیموں نے بھی اس مسئلہ پر اپناذمہ دارانہ کردارادانہیں کیاتاکہ مستقبل قریب میں بھی والدین پریشانی سے دوچارنہ ہوں اوردونوں فریقوں سے انصاف بھی برتاجاسکے۔

حالانکہ حکومتی ادارے نجی سکولزریگولیٹری اتھارٹی کے ایک مراسلے کی روسے کسی بقایاجات والے بچے کو دوسرانجی سکول بھی داخلہ نہیں دے سکتا۔اس لیے اب بھی حکومت ،نجی سکولز مالکان کی تنظیم اوروالدین اس سنگین مسئلے کا قابل قبول حل نکالیں تا کہ متاثرہ والدین اورسکول مالکان دونوں کو درپیش مشکلات کا ازالہ کیاجاسکے۔دوسراایشوڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرہسپتال ہری پور اوربٹگرام میں قائم ڈائلسزیونٹس کی چترال منتقلی بارے فزیبیلٹی کاسنٹرل ورکشاپ پشاورسے جاری کردہ مراسلہ تھاجس سے ضلع بھر کے عوام میں بے چینی پھیلی کہ ہری پور ہسپتال میں ڈائلسزیونٹ کی دستیابی کے باوجوداگرایک مریض کا خاندان ایک ماہ میں ڈائلسزکا خرچہ کم از کم چالیس سے پچاس ہزاربرداشت کر رہاہے تو جب یہ یونٹ ہی نہیں ہو گا توپھرمتعلقہ مریضوں کے خاندانوں پر کیاگذرے گے،وہ دوسرے شہروں یا نجی یونٹوں کے بھاری بھر کم خرچے اورصعوبتیں کیسے برداشت کر سکیں گے۔

الحمدللہ اس عوام دشمن سازش کو روزنامہ جیوہزارہ نے ناکام بنانے میں اپنابھرپور کرداراداکیاجب کی ہری پور یوتھ فورم کے پلیٹ فارم سے سابق نائب ناظم عمران علیزئی ،ہشام چوہان ،زاہدالرحمان زاہدی اوردیگر نے بھی مزاحمتی تحریک کا اعلان کر کے عوامی نمائندگی کا حق اداکیا اورآخرکارصوبائی وزارت بلدیات نے ہری پور اوربٹگرام ہاسپٹل سے ڈائلسزیونٹ کی چترال منتقلی بارے فزیبیلٹی مراسلے کی فوری واپسی و منسوخی کے احکامات جاری کیے حالانکہ اس سنگین صورتحال کے دوران بھی ڈی ایچ کیوہسپتال ہری پور کے ایم ایس اوربعض دیگرسرکاری اداروں کے سربراہان بھی اس مراسلے کو محض افواہ،پراپیگنڈہ اورجعلی مراسلہ قراردے کر عوام کو گمراہ کر رہے تھے مگراس عوام دشمن سازش کے خلاف تحریک چلانے والے تمام لوگ اورعوامی نمائندے یہ سوال کررہے تھے کہ وہ بندہ تلاش کیاجائے جس نے ہری پور کو ڈائلسزیونٹ منتقل کر نے کی جرات کی اورمراسلہ جاری کیا۔

اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی وزیربلدیات اکبر ایوب خان اس بات کا کھراتلاش کریں کہ یہ سب کس نے اورکیوں کیا؟اوراسے عوام دشمن فیصلے پرمحاسبے سے بھی گذاراجائے تا کہ آئندہ نہ ہری پور اورنہ ہی کسی اورشہرکے لوگوں سے ایسی نازک ترین صحت کی سہولت چھین کر انھیں موت کے منہ میں دھکیلاجائے۔اس لیے غلط فیصلے کسی بھی سطح پرکیے جائیں وہ غلط ہی ہوتے ہیں اورڈنکے کی چوٹ پر غلط کہناچاہییے کیونکہ یہ ہی مہذب اورباشعورقوموں کا شیوہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :