اینکرزپرپابندی،پیمراکاحکمنامہ اورردعمل!!!

منگل 29 اکتوبر 2019

Musharraf Hazarvi

مشرف ہزاروی

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اداروں یا حکومت کی ترقی و تنزلی میں اس کے مشیروں کا کلیدی عمل دخل ہوتاہے اس لیے متعلقہ ذمہ داران کو یہ محل نظررکھناہوتاہے کہ ان کے اردگردکس سوچ اورویژن کے لوگ موجودہیں اورپھرکامیابی وناکامی اورنفع ونقصان کے ذمہ داربھی وہ ہی قرارپاتے ہیں۔یہ تمہیداس تناظرمیں پیش کرنی پڑی کہ دوروزقبل پیمراکی طرف سے ایک حکمنامہ جاری کیاگیاہے جس میں ٹی وی چینلزکے اینکرزکوغیرجانبداررہنے اوراپنے پروگراموں کے علاوہ کسی دوسرے چینل پر بطورمبصرشرکت کرنے اوراظہارخیال پر پابندی عائدکردی گئی ہے جسے ملک بھرکے مختلف مکاتب فکر کے حلقوں اورشخصیات کے ساتھ ساتھ صحافتی حلقوں اورتنظیموں کی طرف سے بھی سخت تنقیدکا نشانہ بنایاجارہا ہے علاوہ ازیں یہ کسی "نادان دوست "کی اتنی بڑی نااہلی کھل کر سامنے آئی ہے کہ جسے خودحکومتی صفوں میں موجودصوبائی و وفاقی وزراء بھی حیرت انگیزوغیرمناسب فیصلہ قراردے رہے ہیں تاہم اس ایشوپروزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ کہ کسی اینکرکو آزادی اظہاررائے سے نہیں روکاگیا اوراینکرزاپنے شو میں کسی بھی موضوع پر بات کر سکتے ہیں ،(جب کہ پیمراکہہ رہا ہے کہ اینکرکسی دوسرے اینکرکے شومیں بحیثیت مبصرشریک اوراظہارخیال نہیں کر سکتے)جسے ڈاکٹرصاحبہ اپنے موقف میں گول کر گئی ہیں۔

(جاری ہے)

اسی حوالے سے خیبرپختونخواکے وزیراطلاعات شوکت یوسفزئی نے موقف اختیارکیا ہے کہ پیمراکے فیصلے پر تشویش ہے اوروزیر اعظم کو معقول مشورہ نہیں دیاگیا،وفاقی وزیرسائنس و ٹیکنالوجی فوادچوہدری نے کہا کہ اینکرزپرپابندی کا نوٹیفیکیشن بالکل غیرضروری اورغیرمنطقی ہے اوراینکرزکے حقوق کو دبانے کے بجائے فیک نیوز(جھوٹی خبروں)کے خلاف کاروائی کا بہترانتظام کرناچاہییے،قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چئیرمین اسدعمرکے مطابق فیصلہ حیرت انگیزہے جب کہ وفاقی وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ اطلاعات پر تبصرے کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں اوراستفسارکیاکہ کیامہارت کسی ڈگری سے ظاہرہوگی؟دوسری طرف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یو جے) نے بھی پیمراکی طرف سے اینکرزپرعائدپابندیوں کو کلی طورپرمستردکر دیا ہے جب کہ کونسل آف پاکستان نیوزپیپرزایڈیٹرز(سی پی این ای)کے صدرعارف نظامی نے پیمراحکمنامے کوچینلزکومحدودکرنے کی کوشش قراردیا ہے ۔

ادھرپاکستان الیکٹرانک میڈیاایڈیٹرزونیوزڈائریکٹرزایسوسی ایشن نے بھی پیمراکی طرف سے جاری مذکورہ غیرقانونی حکمنامے پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے حالات حاضرہ کے پروگراموں کے میزبانوں پرعائدپابندی کوناقابل قبول،غیرقانونی اوراختیارات سے تجاوزقراردیاہے۔مقام حیرت ہے کہ نادراکی طرف سے سابق سینیٹروسابق صوبائی وزیراورجے یو آئی(ف)کے مرکز ی راہنماء حافظ حمداللہ کی اچانک شہریت منسوخ کرنے پر مبنی نادرشاہی فیصلے پربپاغلغلہ ابھی تھمانہیں تھاکہ پیمراکومتنازعہ و غیرقانونی حکمنامہ جاری کرنے پر راغب کردیاگیا،قربان جائیے ان اداروں کے کارناموں پر کہ حافظ حمداللہ اپناعرصہ" سینیٹری" و"وزیری" پوراکر چکے مگرتب سے اب تک اورحافظ صاحب کے ایک بیٹے بھی پاک آرمی میں اہم عہدے پر فائزہیں مگرپہلے نادرایانااہل مشیرلسی پی کر سوئے رہے کہ اگرحافظ حمداللہ پاکستانی شہری کے طورپرمعمولات زندگی کرتے اورزمام حکومت میں بھی شریک رہے تواب اچانک ایسی کیاافتادآن پڑی تھی کہ ہنگامی بنیادوں پران کی شہریت منسوخ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی؟(جب کہ نادراکے اس فیصلے کو اسلام آبادہائی کورٹ نے آج منگل کے روزمعطل بھی کردیاہے اورنادراسے دوہفتوں میں جواب بھی طلب کرلیاہے،ساتھ ہی عدالت نے پیمراکی طرف سے حافظ حمداللہ پرٹی وی مباحثوں میں شرکت پر پابندی کا حکمنامہ بھی معطل کردیاہے))۔

وزیراعظم عمران خان کو نوٹس لیناچاہییے کہ ایسے غیرمعقول فیصلے کون کروارہاہے جس سے ایک طرف حکومتی جگ ہنسائی ہو رہی ہے تودوسری طرف ایسے عجب ،انوکھے اورمتنازعہ ترین فیصلوں سے حکومتی ساکھ بھی بری طرح متاثرہو رہی ہے بلکہ یہ تاثرمل رہا ہے اوراپوزیشن ایسے" لطیفہ نما" فیصلوں کو بنیادبناکرکہہ رہی ہے کہ حکومت سخت بوکھلاہٹ کا شکارہے اوراسے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیاکرے؟۔

رہی بات پیمراکے فیصلے کی تو اس میں قطعی طورپردورائے نہیں کہ وطن عزیز میں وضع شدہ صحافتی ضابطہ اخلاق پرنظرثانی اوراسے بجاطورپربہتربنانے کی ضرورت ہے تا کہ نہ تو کوئی کسی وقت خواہش کو خبربناسکے اورنہ ہی کسی کی خواہش یا ذاتی پسندوناپسندپرمبنی حقائق کے منافی تبصرے کیے جا سکیں ،اس حدتک تو بات ٹھیک ہے اوروفاقی وزیرفوادچوہدری کا موقف بھی اسی قسم کا اورجائزہے دوسری طرف کسی اینکرکی کسی دوسرے ٹی وی چینل کے پروگرام میں بحیثیت مبصرشرکت پر پابندی قطعی طورپرغیرقانونی،غیرآئینی اورصحافتی ضابطہ اخلاق کے بھی منافی ہے جسے کسی صورت کوئی بھی قبول نہیں کر سکتا یہ ہی وجہ ہے کہ اس متنازعہ فیصلے پرجوملک بھر سے ردعمل سامنے آیاہے اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ یہ آئین و قانون سے کتنامتصادم حکمنامہ ہے لہٰذاحکومت ایسی فاش غلطیوں سے گریزکرے اورماضی قریب میں جوخودتنقیدکرتی رہی ہے تو اب دوران حکومت اپنے کسی غلط و غیرمناسب اقدام و حکمت عملی پر آنے والے جائزردعمل اورتنقیدکو بھی خندہ پیشانی سے برداشت کر کے اپنی گورننس اورفیصلوں میں مزیدبہتری لائے جو بذات خودحکومت کے لیے ہی خوش آئندومناسب ہے ۔

حکومت کو یہ بات ضرورمحل نظررکھنی چاہییے کہ اسے موجودہ معاشی صورت حال،کمرتوڑمہنگائی اورمختلف سطح پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے نمٹناہے توعوام دوست پالیسیاں اورقومی بیانیہ اپناناہوگابصورت دیگرمحض مخالفین یاناقدین کو بلاجوازدبانے اوربہرصورت من مانیاں کرنے پرمبنی فیصلے حکومت کے لیے مزیدمشکلات پیداکر سکتے ہیں اس لیے اگرآئین و قانون اورانسانیت کومدنظررکھ کر فیصلے کیے جائیں تو اس کے بہتراثرات مرتب ہو سکتے ہیں دوسری طرف اس طرح کے منتقم مزاج ،عاجلانہ یاعوام دشمن فیصلے حکومت کے لیے مزیدمشکلات کا سب بھی بن سکتے ہیں ۔

پھریہ میڈیاتووہی میڈیاہے جس کے بارے میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ اس مقام پر صرف میڈیاکی وجہ سے پہنچے ہیں اس لیے اب وہ ملکی و قومی ترقی کے لیے بھی اگر اسی میڈیاسے استفادہ کریں توان کے لیے زیادہ مناسب ہو گا۔گذشتہ کچھ عرصہ سے محسوس یوں ہورہا ہے کہ میڈیاکے گردگھیراتنگ کیاجارہا ہے اس ضمن میں ہموارہوتی رائے عامہ پرپیمراکے حالیہ حکمنامے نے بھی جلتی پرتیل کا کام کیاہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیامیں جہاں جہاں حکومت یامتعلقہ اداروں اورافرادکی جائز شکایات ہیں ان کا ازالہ ہوناچاہییے اس مقصد کے لیے اخباری و چینل مالکان و مدیران کو اعتماد میں لے کرایسی پالیسی وضع کی جا سکتی ہے جس سے حقائق بھی قارئین و ناظرین تک اپنی اصل شکل میں پہنچتے رہیں اورکسی فردیاادارے اورحکومت کو بھی کسی اخباریاچینل سے کوئی شکایت باقی نہ رہے۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بعض اوقات مذکورہ دونوں قسم کے میڈیامیں ھقائق کو مسخ کر کے یا ذاتی پسندوناپسندکی بنیادپرکچھ موادپیش کردیاجاتاہے لیکن سارے ہی صحافتی ادارے اس غیرمنصفانہ قسم کی روش پر قائم نہیں اس لیے کسی ایک کے غیرمناسب وغیرمنصفانہ اقدام کی سزادوسروں یا سب کو دینابھی کسی صورت مناسب نہیں۔اس حوالے سے صحافتی ضابطہ اخلاق کو مزید موثربنانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اس لیے کہ بعض صحافیوں یا صحافتی اداروں کی غیرمنصفانہ حکمت عملی سے حکومت تو کیادیگرکئی ایک ادارے یاافرادبھی ایک عرصہ سے شاکی رہے ہیں اس لیے اس پر فوری کام کرنے کی اشدضرورت ہے تا کہ صحافتی اداروں سے منسلک افرادکاکردارغیرمنصفانہ رویوں سے پاک اورزیادہ ذمہ داربنایاجاسکے۔

لیکنیہ بھی ذہن نشین رہے کہ کوئی حکومتی وزیرمشیراگریہ سمجھتاہے کہ میڈیاپردباؤبڑھاکرحقائق چھپائے یا مسخ کر کے عوام تک پہنچائے جا سکتے ہیں تو یہ ان کی بڑی غلط فہمی ہو گی کہ میڈیانے آمرانہ ادوارمیں اگرحق وصداقت کی پالیسی پر کمپرومائزنہیں کیااورجیلیں،کوڑے اورصعوبتیں برداشت کرلیں تو آج بھی ایسے ہی کئی ایک قابل تقلیدقدآورصحافتی شخصیات اوران کی پیروی کرنے والے جرات مندصحافی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیامیں موجودہیں جوہرقسم کی قربانی تودے سکتے ہیں مگرمیڈیاپرکسی قسم کی قدغن یاڈکٹیشن پالیسی کسی صورت قبول نہیں کر سکتے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ پی ایف یو جے اورسی پی این ای سمیت اخبارات و چینلزکی دیگرتنظیمیں بھی حرکت میں آچکی ہیں اس لیے ارباب اختیارکوکارکن کش اورمیڈیاکش کے ساتھ ساتھ حق کش پالیسی سے بھی بہرصورت دوررہناہوگابصورت دیگرحق سچ کے متوالے انقلابی شاعرفیض احمدفیض کا یہ سبق دہراتے ہوئے میدان میں نظرآئیں گے کہ:
متاع لوح و قلم چھن بھی گئی تو کیاغم ہے
کہ خون دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں، زباں میں نے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :