بِن روئے ماں بھی دُودھ نہیں دیتی

منگل 1 دسمبر 2020

Nadeem Akbar

ندیم اکبر

جی ہاں جب تک شیر خوار بچہ روتا نہیں تب تک اس کی سگی ماں بھی اس کو دودھ نہ دیتی۔ جب بچہ روتا ہے تو اس کی ماں دودھ پلاتی۔ جی بالکل یہی قائدہ ہمارے پورے معاشرے میں رائج ہیں جب حق نہیں مانگوں گے تو کوئی دینے والا نہیں۔ یہ سماج ایسا ہے یہاں حق مانگنا پڑتا ہے، حق چھینا پڑتا ہے اور حق کے لیے لڑنا پڑتا ہے جب بن مانگے ماں کچھ نہیں دیتی تو یہ سماج سے کیسی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ بغیر کسی مطالبے کے ہمیں کچھ دے گی۔

۔ ہر اس چیز کو آپ کی حق تصور کی جاتی ہے جو قدرت نے اپکو دے رکھی ہو یا آپکی ملکی قوانین میں درج ہو کہ یہ یہ چیزیں آپ کا حق ہے مثلاً آزادی،اظہار رائے کی آزادی، مفت علاج، مفت معیاری اور بنیادی تعلیم، آپ کی تحفظ، سستی اور بر وقت انصاف، ووٹ کا حق، انجومن بنانے کا حق، تحریک چلانے کا حق، بنیادی سہولیات کا حق جس میں روڑ سڑک، سکول، ہسپتال،خوراک اور بہت کچھ ہمارا حق ہے ریاست بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے شہریوں کو یہ حقوق دینے کا پابند ہے۔

(جاری ہے)

ان حقوق کے بدلے ہمارے ذمے بھی کچھ فرائض عائد ہیں جن میں قانون کا احترام، ایک وفادار شہری، وقت کی پابندی، اپنی زمے کے کام خود سر انجام دے دینا وغیرہ وغیرہ۔
جب بھی حق کی بات ہوتی ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ فرائض بھی آجاتی ہے۔ یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے پر لازم و ملزوم ہیں۔حق کے لیے جان دی بھی جاتی ہے اور لی بھی جاتی ہے۔ حضرت حسین علیہ سلام نے یزید کی بیعت صرف اس لیے قبول نہیں کی کیونکہ حسین علیہ سلام حق پر تھے اور اس کو یہ تک بھی معلوم تھا کہ سچ بولنے سے اور حق پر ڈٹے رہنے سے اس کی جان بھی جاسکتی ہے لیکن پھر بھی وہ حق پر ڈٹے رہے اور باطل کے آگے سر جھکانے سے صاف انکار کردیا۔

جی بالکل اس عظیم الشان قربانی سے عالم انسانیت کو یہ پیغام دی گئی کہ حق کی خاطر اگر تیری جان بھی جاسکتی ہے تو اس سے بھی دریغ نہیں کریں بلکہ خوشی خوشی رضامندی ظاہر کردو۔ جب تک حق کے لیے آواز بلند نہیں کروگے یہ سماج آپ کو کبھی مفت میں پلیٹ میں رکھ کر حق نہیں دے گی اس کے لیے جدو جہد کرنا لازمی ہے اور حق ہمیشہ قربانی مانگتی ہے اور جب تک ہم قربانی دینے کے پوزیشن میں نہیں ہونگے اس وقت تک کوئی ہمیں ہمارا حق دینے کو تیار نہیں ہوگا۔


آئیں ہم آپ کو چند قربانیوں کے بارے میں بتاتے ہیں
1 دین اسلام دنیا میں ایسا نہیں پھلا پھولا بالکہ کئی قربانیوں کے بدلے میں یہ دین دنیا کے کونے کونے میں پہنچا۔ اس کے لیے علمائے کرام نے کوڈے کھائے، فانسی پہ چڑھے، جلاوطنی کاٹی،اپنی جان مال اور اولاد تک کا نذرانہ پیش کیا تب جاکے یہ دین دنیا کے کونے کونے میں پہنچا۔
2 پاکستان بھی مفت میں ہمیں کسی نے نہیں دیا ہے بلکہ ہمارے آباؤ اجداد کی لازوال قربانیوں کے بدلے میں یہ ملک ہمارے حصے میں آیا ہے۔

کم و بیش پانچ لاکھ جانوں کا نذرانہ دے کر یہ پیارا ملک دشمنوں کی چنگل سے آزاد ہوچکا ہے۔
اسی طرح چھوٹی سی چھوٹی چیز بھی قربانی مانگتی ہے اور بڑی چیز بھی قربانی مانگتی ہے بغیر محنت اور قربانی سے ملی ہوئی کسی بھی قسم کے کام اور چیز کا وہ مزہ نہیں جو قربانی سے ملی اور محنت سے ملی ہوئی کام اور چیز کا ہو۔ یہاں ایک بات واضح ہوگئی کہ حق کے لیے اگر جان تک کی بھی قربانی درکار ہوگی تو اس سے بھی دریغ نہیں کردینا چاہیے اور حق نہ صرف مانگی جاتی ہے بلکہ چھین کر لینی پڑتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :