تلاش گمشدگی عمران خان

ہفتہ 9 جنوری 2021

Nadeem Akbar

ندیم اکبر

نام عمران احمد خان نیازی والد اکرام اللہ خان نیازی، عمر 68 سال صوبہ پنجاب کے شہر میانوالی کا رہائشی ہے۔ موصوف پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان بھی رہ چکا ہے، اور سیاست کا بھی شوقین تھا۔ اسی شوق کی بنا پر آپ نے 1996 میں ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی اور اس پارٹی کا نام پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) یعنی انصاف کرنے اور انصاف پر مبنی فیصلے کرنے والی جماعت بنائی۔

موصوف مشرف دور میں ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے پھر 2008 کی الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ موصوف کی جماعت نے 2013 کے الیکشن میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا اور صرف 28 سیٹے جیتنے میں کامیاب ہوئے اور اپنی شکست کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا۔ پھر ہوا یوں کہ خان نے پاکستانی تاریخ کی سب سے طویل دھرنا دیا۔ یہ دھرنا 126 دن تک اسلام آباد میں رہی اور آخر کار پشاور آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے دھاوا بول دیا اور 142 معصوم بچوں اور اساتذہ سمیت ڈیڑھ سو سے زائد افراد کو آبدی نیند سلا دیا۔

(جاری ہے)

اس دلخراش واقعے کے بعد عمران خان نے اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا اور حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر دھشتگردوں کے خلاف قانون سازی کرنے اور پشاور آرمی پبلک اسکول سمیت ملک بھر میں دھشتگردی سے متاثرہ افراد کو انصاف دلانے کی حامی بھر لی۔ اور ساتھ ہی ساتھ حکومت وقت کو گھر بھیجنے کے لیے عوامی،سیاسی اور قانونی چارہ جوئی بھی تیز کر دی۔ حکومت کی ہر ناکامی کا کھل کر مخالفت کی۔

جہاں کہی پر بھی ظلم و زیادتی ہوتی عمران خان کا مذمتی بیان سب سے پہلے آتا۔
اب آتے ہیں اصل مدعا پر ایک ہفتہ پہلے کویٹہ کے علاقے مچھ میں دھشتگردوں نے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 11 کان کنوں کو بڑی بے رحمی سے گلا کاٹ کر قتل کر دیا گیا اور ان کے ورثاء نے اپنے پیاروں کے لاشوں کو لے کر قومی شاہراہ پر آکر بیٹھ گئے اور سڑک کو ہر طرح کی ٹریفک کے لیے بند کردیا اور اس شرط پر میتوں کو دفنانے کے لیے تیار ہیں کہ عمران خان خود ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے وعدہ کرے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا اور ملاوث افراد کو جلد از جلد ڈھونڈ لیا جائے گا اور ان کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے تاکہ دوبارہ کسی معصوم کا ناحق خون نہ ہو۔

 
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان کو پہلے دن ہی کویٹہ جانا چاہیے تھا اگر پہلے دن وزیراعظم کی مصروفیات زیادہ تھے تو دوسرے دن تشریف لے جاتے، اس دن بھی وقت نہیں ملا تو کوئی بات نہیں تیسرے دن چلے جاتے یا چوتھے دن جاتے پھر بھی وقت نہیں نکال سکھا تو پانچوے یا چھٹے دن تشریف لے جاتے۔ افسوس صد افسوس آج پورے ہفتہ ہونے کو ہے اور وزیر اعظم ٹس سے مس نہیں۔

وہ ان چھے دنوں میں کبھی یوٹیوبرز کو بلا کر ملک کے معروف صحافیوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع کرنے کا ٹاسک دے دیتے اور کبھی ترک ڈرامہ ارطغرل کے منتظمین اور اداکاروں کے ہمراہ نشست رکھتے۔ کویٹہ مچھ مقتولین کے ورثا عمران خان کا راہ تکتے رہ گئے اور اپنے پیاروں کو دفنانے کے منتظر ہیں۔ ہمارے محترم وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ مچھ واقعے میں بھارت کا ہاتھ ہے اور بھارت کا خفیہ ایجنسی را اس میں ملوث ہے۔

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کو پتہ ہے اس سب سازش اور قتل و غارتگری کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے تو پھر مچھ جا کر مقتولین کے ورثا کے ساتھ آدھا ایک گھنٹہ گزارنے سے کتراتے کیوں ہے؟؟ لگتا تو یہ ہے کہ یہ خان وہ خان نہیں ہے جو کبھی حزب اختلاف میں ہوا کرتا تھا۔ جو ایک مخلص اور غریب دوست ہوا کرتا تھا۔ ہر ظالم اور ظلم کے خلاف اعلان بغاوت کرتے۔

کاش وہ خان آج زندہ ہوتے تو پہلے ہی روز ہزارہ برادری کو حوصلہ دینے تشریف لے جاتے اور عین ممکن تھا کہ وہ مقتولین کے ورثا کے ہمراہ دھرنے میں بیٹھ جاتے۔ نہ جانے کس کی نظر لگی ہمارے خان کو وہ صرف ایک مخصوص ٹولے کا ہو کر رہ گیا۔ اب نہ اس کو ظلم نظر آتا، نہ کہی حق تلفی نظر آتا۔ اب تو حد ہی کر دی قتل و غارت بھی نظر نہیں آتا۔ کوئی پاکستان کا خان پاکستان کو واپس کر دیں بڑی مہربانی ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :