"ایسے کاموں میں ایسا ہی ہوتا ہے"

پیر 14 دسمبر 2020

Nadeem Akbar

ندیم اکبر

گزشتہ دو تین دن سے سوشل میڈیا پر طارق لالک جان کو لے کر کافی شور مچا ہوا ہیں۔ کوئی ان کے حق میں سرگرم ہیں اور کوئی ان کے مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ گویا کی ہر شخص نا چاہتے ہوئے بھی اس معاملے میں گود پڑا ہے۔ ہوا کچھ یوں ہے کہ حکومت گلگت بلتستان نے فرزند لالک جان شہید نشان حیدر کو نائب تحصیلدار منتخب کیا ہے۔ اور یہ ان کا حق بھی بنتا ہے۔

کمپنسیٹ اپوائنٹمنٹ رولز کے تحت پندرہ سکیل تک نوکری بغیر ٹیسٹ انٹرویو کے صوبائی حکومت دے سکتی ہے۔ یہ قانون نے اجازت دی ہے کہ گورنمنٹ نوکر کی دوران ڈیوٹی اگر موت واقع ہوجاتی ہے تو ان کے اہل خانہ میں سے کسی ایک کو سرکاری نوکری دی جائے گی۔ اور یہاں پر بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ طارق ایک سرکاری ملازم کا سپوت ہے اور وہ طارق کا باب کوئی معمولی شخص بھی نہیں بلکہ وہ کارگل وار میں پاکستان کی حفاظت میں دشمن کو چنے چبوانے پر مجبور کرنے والا، اپنی وطن کی حفاظت میں سیسہ پلائی دیوار بن کر حفاظت کرنے والا اور پاکستان آرمی کی سب سے بڑی اعزاز نشان حیدر پانے والا گلگت بلتستان کا اکلوتا سپوت تھا۔

(جاری ہے)

اور صوبائی حکومت نے بالکل رولز کے تحت یہ فیصلہ کیا ہے۔ ہمیں یا کسی اور کو طارق کے اوپر بلکل بھی نکتہ چینی نہیں کرنی چاہیے۔ جو لوگ اس اپونمنٹ کی مخالفت کرتے ہیں وہ دو ہی وجوہات پر مخالفت کررہے ہیں اؤل یہ کہ نشان حیدر کے بدلے میں حکومت نے گلگت بلتستان کو صرف ایک چودہ سکیل کی نوکری سے نوازا اور وہ بھی بڑی تگ ودو کے بعد۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت شہید نشان حیدر کے بچوں کو بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھاتی اور ان کو کم از کم اس قابل بنایا جاتا کہ آج وہ ایف پی ایس سی اور سی ایس ایس کا امتحان خود اپنی قابلیت سے کلئیر کرلیتے اور کسی کو یہ موقع ہی نہ دی جاتی کہ وہ نشان حیدر کا مذاق اڑائے۔

اب لوگوں سے یہ گیلا کرنا کہ وہ اس نائب تحصیلداری کو لے کر ایک شب بھی نہ بولے یہ ناممکن ہے۔ کیونکہ یہاں غلطی حکومت کی ہے عام جنتا کی نہیں اس لیے حکومت کو آئندہ کبھی اس طرح کی فیصلہ کرنے سے پہلے عوام کی ری ایکشن کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ لے لے تاکہ بعد میں پچھتاوا نہ ہو۔
دوسری جو وجہ ہے وہ یہ ہے کہ 10 ماہ پہلے گلگت بلتستان حکومت نے نائب تحصیلداری کی چند پوسٹوں کا اعلان کیا تھا اور بہت سارے امیدواروں نے ان پوسٹوں کے لئیے فارم جمع کروائے ہیں اور ان کو لگا کہ نائب تحصیلداری کے جو پوسٹ ایڈورٹائز ہوئے تھے وہ جعلی تھے اور صرف دیکھانے کے لیے تھے جبکہ ان کا اصل مقصد اپنے چہیتوں کو چور دروازے کے تھرو نوازنا تھا۔

کرونا وائرس کی وجہ سے ٹیسٹ انٹرویو نہیں ہوئے ہیں اور ڈیلے پہ ڈیلے ہوتی جارہی ہیں اور وجہ اس عالمی وبا کو بنایا جارہا ہے۔
حکومت کے لیے آسان طریقہ یہ تھا کہ وہ سب کا ٹیسٹ انٹرویو رکھ لیتے اور ان کے ساتھ طارق کو بھی ایڈجسٹ کرلیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ یا ایسا کرلیتے کہ حکومت گلگت بلتستان نے جن نائب تحصیلدار کی پوسٹوں کا اعلان کیا تھا ان کو پہلے پر کرلیتے اور بعد میں سپیشل پوسٹ پہ طارق کو اپونمنٹ کرلیتے تو اچھا ہوتا خیر اب رات گئی بات گئی کی مانند ہے۔

یہاں نہ طارق کی غلطی ہے اور نہ ان کے اوپر تنقید کرنے والوں کی بلکہ غلطی حکومت کی ہے اور حکومت کی غلطی وقت کی تعیین کرنے میں ہیں۔ یہ ٹائمنگ صحیح نہیں تھا باقی سب ٹھیک ہے۔
خیر ہم اس عظیم باب کے سپوت کو نائب تحصیلداری کی مبارک باد پیش کرتے ہیں اور یہ امید ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سپوت اپنے ابّا کی لاج رکھتے ہوئے عوام اور علاقے کی خدمت میں پیش پیش رہیں گے اور علاقے کی مثبت امیج کو سامنے لانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :