"میری نظر میں"

جمعہ 4 دسمبر 2020

Nadeem Akbar

ندیم اکبر

حالیہ دنوں سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر گلگت بلتستان کے اوپر گفت و شنید جاری ہیں۔ مختلفت تجزیہ نگار اپنی اپنی سوچ اور علم کے مطابق رائے دے رہے ہیں۔ جی بات چل رہی ہے گلگت بلتستان کو آئینی/ عبوری صوبہ بنانے اور گلگت بلتستان اسمبلی کی الیکشنز کے حوالے سے۔ جیسا کہ نصف نومبر کو گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات ہونے جارہے ہیں۔

اس حوالے سے سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے منشور گلگت بلتستان کے حوالے سے واضح کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی جی بی کو آئینی صوبہ بنانے میں لگا ہے، کوئی جی بی کو عبوری صوبہ بنانے میں لگا ہیں اور کوئی جی بی کو کشمیر طرزِ کے سیٹ اپ کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں اور کوئی موجودہ سیٹ اپ کو طول دینے کے حق میں۔
جی بی کو پچھلے سات دہائیوں سے مسلسل حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔

(جاری ہے)

یہاں کے لوگ سو فیصد مسلمان ہیں اور پاکستان سے محبت کرنے والے ہیں۔ یہاں کے لوگوں نے 1947 عیسوی میں اپنی مدد آپ کے تحت ڈوگرا راج سے آزادی حاصل کرلی اور 16 دن تک ایک آزاد ریاست کی طرز پر گلگت کو چلایا پھر ریاست پاکستان سے الحاق کر لیا۔ وفاق کو بجائے حقوق دینے کے الٹا وہاں کے باشندوں کو ملی آزادی سے ہی محروم کردیا اور ایف سی آر جیسی کالی قانون نافذ کر کے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا۔

1947 سے پہلے گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ تھا اور مہاراجہ کے زیر انتظام تھا۔ مہاراجہ کی طرف سے وہاں کے باشندوں کو سپیشل ریایت دی گئی تھی جیسا کہ سٹیٹ سبجیکٹ رول (ایس ایس آر)۔ اس قانون کے تحت وہاں کے لوگ اپنی زمینوں کے مالک تھے۔ یہ قانون 1974 میں وفاق نے ختم کر دی جس کی وجہ سے نالہ جات اور بنجر زمین اور وہاں کے شاملات کا مالک وفاق بن گیا۔۔


سٹیٹ سبجیکٹ رول اور بہت سی رعایات کے ساتھ عبوری صوبہ بنانے سے نہ صرف عوام گلگت بلتستان اس کو قبول کرینگے بلکہ اس سے خوشی خوشی اس کو اپنائیں گے۔
اب ریاست کو چاہیے کہ تمام قانونی اور جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اور جی بی کے عوام الناس کی منشاء کے مطابق اور وہاں کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے ایک نئی عمرانی معاہدے پر دستخط کریں ۔

اس سے نہ صرف عوام میں پھیلی بیچینی کو ختم کیا جاسکتا ہے بلکہ وہاں کے باشندوں کی اعتماد بھی جیت سکتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو کیا چاہیے؟؟؟
اس سوال کا تعلق گلگت بلتستان کے باسیوں سے مطلق ہیں تو وہی بہتر جواب دے سکتے ہیں نہ کہ کوئی پاکستانی، انڈین یا کشمیری۔ وہاں کے لوگوں کا جو بھی جائز مطالبہ ہے وفاق کو من و عن اس پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہیں۔


لیکن یہ بات گلگتی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ عبوری صوبہ بنانے کا یہ محض ایک سیاسی نعرہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ جب بھی الیکشن قریب آتے ہیں وفاق ہمیشہ حقوق دینے کا شوشہ چھوڑتا ہے۔ اس طرح کے اعلانات اس سے پہلے بھی کئی بار ہوچکے ہیں اور عوام بھی اس طرح کے پروپیکینڈوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وفاق ہمیشہ لالی پوپ دینے کی آفر دیتا آیا ہیں لیکن سات دہائیوں سے مسلسل حقوق کی بات ہی کرتی ہیں۔

اگر حقوق دینے کی موڈ ہوتا تو کب کا دے چکا ہوتا۔ آپ اس بات سے ہی اندازہ لگا لے کہ جب بھی گلگت بلتستان کے اوپر کوئی میٹنگ بولائی جاتی ہے تو کبھی بھی گلگت بلتستان کے کسی ایک بھی ممبر کو انوائیٹ کیا ہو۔ اس سارے کیس سٹیڈی کے بات میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وفاق گلگت بلتستان کے باسیوں کو کسی قسم کے کوئی رعایت یا حقوق دینے کے موڈ میں نہیں ہے۔


اگر انھوں نے عبوری صوبہ دے بھی دیا تو اس سے وہاں کے باشندوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ الٹا عوام کو زد و کوب کیا جائے گا۔ جس سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوگا۔ صرف آئین کے آرٹیکل 258 کا تعلق صدارتی حکم نامے سے متعلق ہے اس آرٹیکل میں ترمیم کر کے صوبہ دیا کہنے سے بہتر ہے موجودہ سیٹ اپ کو ہی قائم رہنے دیا جائے۔ ویسا بھی اس آرٹیکل کا تعلق کشمیر سے ہیں اور اس آرٹیکل کے رو سے گلگت بلتستان کشمیر کاز کا ایکائی ہیں۔

اب اس میں ترمیم کر کے تین سے چار جگہ لفظ گلگت بلتستان لکھا جائے گا۔ اور زیادہ سے زیادہ آرٹیکل 257 میں ترمیم کی جائے گی اس ترمیم کے نتیجے میں سینٹ اور قومی اسمبلی میں تین سے چار سیٹ دے دیں گے، وہ بھی بطور مبصر۔ اور اس کے نتیجے میں غریب عوام کو میسر سبسڑیز کا خاتمہ ہوگا اور باری ٹیکسیس عائد کیں جائے گے۔ سچ یہ ہے کہ ریاست گلگت بلتستان کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے UNO کے قراردادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلہ کشمیر کی حل تک جی بی کو آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے۔

اس سے نہ کشمیر کاز کو کوئی نقصان پہنچے گا اور نہ ریاست کو۔
عبوری صوبہ پرانی شراب کو نئی بوتل میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ باقی اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
کیا اس سے وہاں کے مسائل حل ہونگے ؟؟ کیا اس عمل سے کسی ایک غریب کی زندگی میں زرہ برابر بھی کوئی تبدیلی آئے گی؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :