اسٹیل مل کی کہانی

منگل 9 جون 2020

Najam Safdar

نجم صفدر

پاکستان تحریک انصاف حکومت نے اسٹیل ملز کے تقریبا 10 ہزار ملازمین کو گولڈن شیک ہینڈ کے 23 لاکھ روپے فی کس یکمشت ادا کرکے فارغ کرنے کا اعلان کردیا، اسکے بعد ہر طرف بحث و مباحثہ شروع ہوگیا، تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ میں بھی اس فیصلے پر تنفید کروں بالخصوص اسد عمر کی وہ تقریر لوگوں کو دکھائوں جو انہوں نے اسحاق ڈار کی جانب سے اسٹیل ملز کو پرائیویٹائز کرنے کے خلاف اسٹیل مل کے ملازمین سے کی اور بلند و بالا دعوے کیے کہ میں آپکو اسٹیل مل چلا کر دکھائوں گا ویڈیو ریکارڈ کرلیں کسی ملازم کو نکالا گیا تو میں استعفی دے دوں گا، یا تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے سرکاری اداروں کی نجکاری کے خلاف کی گئی جارحانہ تقریروں کا حوالہ دوں۔


لیکن تصویر کا روسرا رخ دیکھیں تو اسٹیل مل پاکستان کا وہ قومی ادارہ ہے جسکی ضرورت پاکستان کے پانچوین وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے 1956 میں محسوس کی اور روسی صدر سے اس بابت بات چیت کا آغاز کیا، جنرل یحیی خان نے اس منصوبے کو باقاعدہ منظوری دی، پاکستان اسٹیل ملز کارپوریشن لمیٹڈ نامی ایک ادارہ بنایا، کراچی میں اس ادارے کو 19 ہزار ایکڑ اراضی دی اور 1969 میں روس کے ساتھ اس منصوبے کے قیام کا معاہدہ ہوا، 1971 میں روس نے تکنیکی اور مالی معاملات میں مدد کا معاہدہ کیا اور یوں شہید ذوالفقار بھٹو نے 30 دسمبر 1972 میں اسکا سنگ بنیاد رکھا۔

(جاری ہے)


پاکستان اسٹیل ملز نے بہت کمایا، ملک و قوم کو بہت فائدہ دیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکا منافع کم، اور کرپشن زیادہ ہونے لگی، ان حالات کو دیکھ کر 2006 میں اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے اسٹیل مل کی نجکاری کا فیصلہ کیا جس میں 3 کمپنیوں نے دلچسپی ظاہر کی اور سعودی گروپ الطواری نے 300 ملین ڈالر کی انویسٹمنٹ بھی کردی، لیکن تب ایک چھوٹی سیاسی جماعت نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کردی اور تب کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے نجکاری کا یہ عمل روک دیا۔


پاکستان اسٹیل ملز 2008 تک تھوڑے ہی سہی لیکن منافع میں تھی 2008 میں اسٹیل مل کی اصل تباہی کا سلسلہ شروع ہوا ملازمین کی تعداد یکدم 300 گنا بڑھ گئی، پیپلز پارٹی حکومت نے 2011 میں اسے وفاقی حکومت کی پرائیویٹ کمپنیوں کی لسٹ سے نکال کر مکمل سرکاری تحویل میں لے لیا، اب حالات کچھ یوں ہیں کہ 2015 سے اسٹیل مل مکمل بند ہے، 2016 میں اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بڑھتے خسارے کے پیش نظر اسکی نجکاری کی کوشش کی لیکن انہیں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا (موجودہ وزیر اسد عمر تب احتجاج میں جا پہنچے تھے اور یہ بیان دیا کہ اگر میں اسٹیل مل نہ چلا سکا تو استعفی دے دوں گا) اور بالآخر وہ بھی چپ کرگئے۔


 2008 سے 2020 تک مل کو 300 ارب روہے کا خسارا ہے، مل پر 230 ارب روپے کے قرضے الگ سے واجب الادا ہیں، مل کی بجلی و گیس کٹ چکی ہے، 12 سالوں میں اسٹیل مل کو مختلف حکومتیں 90 ارب روہے کا بیل آئوٹ پیکج بھی دے چکی ہیں، لیکن پھر بھی مل چلنے کا نام نہیں لے رہی، نجکاری کے علاوہ اگر مل کسی کو لیز پر بھی جائے تو اسکے لیے بھی حکومت کو پہلے مل پر واجب الادا 230 ارب روپے کلیئر کرنا ہوں گے، 5 سال سے اسٹیل ملز کے یہ 9 ہزار ملازمین گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں، جس پر تقریبا 70 کروڑ روہے ماہانہ خرچ ہوتے ہیں۔


بیشک اسٹیل مل کو نجکاری کے بغیر بھی چلایا جاسکتا ہے، لیکن جس قسم کا سسٹم، ملکی سیاسی و کاروباری حالات بن چکے ہیں یہ اب صرف دیوانے کا خواب ہی ہے، تو اب فیصلہ عوام کو خود کرنا ہے کہ ہمیں فقط سیاسی اختلافات کے باعث اس سفید ہاتھی کو پالتے رہنا ہے، یا ملک و قوم کے وسائل بچانے ہیں، یہاں یہ بھی اہم ہے کہ ملک میں موجود بہت سی اںتہائی طاقتور شخصیات اور لابیز چاہتی ہیں کہ اسٹیل مل مکمل ناکام ہوجائے انکی نظر اسٹیل مل کی 19000 ایکڑ انتہائی قیمتی زمین پر ہے جو ایک انتہائی عالیشان ہائوسنگ سوسائٹی کے لیے انتہائی موزوں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :