ہوس کا نشہ‎

ہفتہ 10 اکتوبر 2020

Noor Malaika

نور ملائیکہ

ہوس کا بھی نشہ ہوتا ہے یہ بات مجھے  ایک بھکارن سے سیکھنے کو ملی جسکو ہم جاہل اور کمتر سمجھ کے دھتکار دیتے ہیں .زندگی کے معمولات کو چلانے کے لئے اکثر آنا جانا لگا رہتا ہے .ان دنوں مجھے ایک لڑکی ایک ٹانگ سے معذور نقاب چڑھاہے ملجگے سے حلیے میں  شکستہ حال آنکھیں لئے گھٹنوں کے بل بیٹھی اکثر دکھائی دیتی تھی .اسکی آنکھیں اپنے اندر بہت کچھ چُھپاے ہوۓ تھیں   .

میں اکثر تہیہ کرتی کہ کسی دن اس لڑکی سے ملاقات کروں گی.
ایک دن بہرحال مختص کر ہی لیا .میں نے اس سے پوچھا بھیک کیوں مانگتی ہو .کوئی کام کیوں نہیں کرتی . وو ٹوٹے پھوٹے  لہجے میں میری بات کا جواب دینے لگی.میں آسان لفظوں میں لکھ دیتی ہوں.کہنے لگی غربت کی وجہ سے  تعلیم حاصل  نہیں کر سکی .

(جاری ہے)

ہنرماں باپ سکھا  نہیں سکے .گھروں کا کام کرنے کیا جاؤں .

لوگ میری شکستگی اور معذوری دیکھ کر منہ  پر ہی دروازہ بند کر دیتے ہیں .میں نے پوچھا کتنے کما لیتی ہو .کہنے لگی عزت نفس کی گٹھڑی اٹھاے رکھوں تو خالی پیٹ  مجھے اور میرے گھروالوں کو سونا پڑتا ہے اور پھر نقاب کھینچ کر ہٹاتے ہوۓ بولی  کہ اگر یہ بوجھ اتار دوں تو بہت سارے سکّے اور چند  نوٹ بھی جمع ہوجاتے ہیں .وہ خود ہی بولتی چلی گئی.کہنے لگی ابّ جہاں مردوں کا ہجوم زیادہ ہو  وہاں چلی جاتی ہوں .

وو ہوس کے پجاری اپنی نظروں کی بھوک پیاس مٹاتے ہیں اور میں پیٹ بھرنے کے لیے بہت سارے نوٹ جما کرلیتی ہوں .  
عورتیں تو نہ ترس کھاتی ہیں نہ خیرات دیتی ہیں .چند ایک سکّے کشکول میں گرا کے دھتکار دیتی ہیں .اکثر تو لاتیں اور گھونسے بھی مار دیتی ہیں . اس سے تو بہتر ہےمیں اپنی عزت نفس کو دفن کر دوں .ابّا کا نشہ پورا ہوجائے تو وہ اماں اور مجھ پے ہاتھ نہیں اٹھاتا .

اماں کی دوائیں بھی ملا جلا کر پوری ہوجاتی ہیں اور چھوٹے بھائی کو کھلونے بھی میسّر آجاتے ہیں .ایک عزت نفس کو بیچ کر اتنا کچھ ہوجاتا ہے تو کاہے کو یہ بوجھ لادتی پھروں .یہ کہتے ہوۓ وہ آنسوؤں سے بھری آنکھیں ٹپکاتی اپنے معذور بدن کو بمشکل گھسیٹتی  رینگتی ہوئی آگے بڑھ گئی . اور میں گنگ زباں لیے وہیں بیٹھی رہ گئی .
یہ سوال ہمیں خود سے کرنا ہے کہ ہمیں  ایسی کتنی معصوم لڑکیوں عورتوں اور بچیوں کو یوں اپنی عزت نفس کا سودا کرنے پر مجبور کرنا ہے .
جب ہم اپنی ماؤں بہنو ں اور بیٹیوں کی عزتوں کے اتنے محافظ بنتے ہیں تو پھر کیوں ان بےچاری لاچار مجبوروں کو جیتے جی درگور کر دیتے ہیں.اگر آج بھی ہم نے اپنی اصلاح نہ کی تو کل کو ہمارے گریبان ہونگے  اور انکے ہاتھ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :