
اقبال کے شاہین
جمعہ 27 نومبر 2020

نور ملائیکہ
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
(جاری ہے)
آب و دانہ اسکا رزق نہیں ہے بلکہ شاہین تو اپنا رزق اپنی قوت بازو سے پیدا کرتا ہے .
شاہین اپنی زاہدانہ فطرت کے سبب جنگلوں اور پہاڑوں میں رہتا ہے .
کوہستان اور بیابان اسکے من کو لبھاتے ہیں کیوں کہ ان کی اب و ہوا اسکے اندر جوانمردی کے جذبات پیدا کرتی ہے .باقی پرندوں کی طرح وہ اپنا گھونسلہ یا مستقل ٹھکانہ نہیں بناتا .اسکا زاویہ نگاہ آفاقی ہوتا ہے .اقبال کی نظم شاہین بہت اچھے سے اسکی تمام خصوصیات اور اقبال کی اسکے لئے پسندیدگی کی عکاسی کرتی ہے .ذیل میں اقبال کے قلم سے لکھی گئی نظم پیش نظر ہے .
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھکو
ازل سے ہے فطرت میری راہبانہ
نہ باد بہاری نہ گلچیں نہ بلبل
نہ بیماری نغمہ عاشقانہ
خیابانوں سے ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں انکی بہت دلبرانہ
ہواے بیابان سے ہوتی ہے کاری
جواں مرد کی ضربت غازیانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا
میرا نیلگوں آسماں بے کرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
لیکن میرا اس کالم کو لکھنے کا اصل مقصد کچھ اور ہے .یہ تو وہ تمام باتیں اور ازکار ہیں جو اقبال کی سوچ اور اشعار میں نظر آتے ہیں .موازنہ ابّ یہ کرنا ہے کہ جیسے اقبال اپنے نوجوان شاہین کی طرح بلند پرواز اور اعلیٰ سوچ کے مالک دیکھنا چاہتے تھے کیا آج کی نوجوان نسل اس پے عمل کر رہی ہے یا محض علم کتابوں اور نظموں کی حد تک قیدی رہ گیا ہے .بالکل انتہائی افسوس اور شرمندگی کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اقبال کا خواب اور سوچ ہماری آجکی نوجوان نسل رفتہ رفتہ فراموش کرتی جا رہی ہے .ایک نظر اقبال کےنوجوان شاہینوں کے کارناموں پے ڈالتے ہیں جو آج کل کرتے پھر رہے ہیں .آپکو بھی معلوم ہے لیکن ذرا پھر سے باور کراتی ہوں .غور کیجیے .
اقبال کے شاہین آجکل انٹرنیٹ ,سوشل میڈیا کے نشے میں دھت ہیں .
اقبال کے شاہین کو اقبال یاد ہو نہ ہو ,اقبال کے خواب ,سوچ اور نظریہ سے سروکار ہو نہ ہو ,واٹس ایپ ,ٹویٹر اور دیگر سوشل اکاؤنٹس پے اقبال اور قائد کی سالگرہ کا سٹیٹس ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اپ لوڈ کرنا ہمیشہ یاد رکھتے ہیں .لیکن یہ صرف سٹیٹس کی حد تک ہی بات ہے .جب بات آجائے اپنی سالگرہ کی ویلنٹائن کی یا پھر ایسے ہی کسی ہلے گلے کی ,اقبال کے شاہین بھرپور کردار ادا کرتے ہیں ایسی ہر سرگرمی میں .
اقبال کے شاہین اقبال کے اشعار کو یاد رکھیں نہ رکھیں ,رومانوی اشعار اور گانے خوب اچھے سے ازبر کر لیتے ہیں ,نصاب کے دو صفحے یاد ہوں نہ ہوں کوئی تھیوری سمجھ آے نہ آے لیکن جب دیوان ہو کوئی ,شاعری کی غزل ہو یا عشق کی نظمیں مجال ہے جو لفظ بھی ادھر سے ادھر ہو رٹے میں .
اقبال کے شاہین رات دیر تک جاگ کر گھنٹوں کال پیکجز پے بات کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے .
اقبال کے شاہین سنگل ہونے کے غم میں مرے جا رہے ہیں لیکن ملک کس دوراہے پے کھڑا کون کرے پرواہ .
میسج سین ہوجانے کے بعد رپلاے نہ آے تو اگنور ہونے کا غم اقبال کے شاہینوں کی رات بھر کی نیندیں اڑا دیتا ہے ,انکی انا کو ٹھیس پہنچاتا ہے لیکن اقبال کے خواب سوچ اور نظریے نظرانداز ہوں بھلے ,کاہے کو فکر صاحب .
اقبال کے شاہین اپنی رات کی چھوڑی ھوئ نیند صبح جا کر اپنی کلاسز میں بیک بنچز پے بیٹھ کر یا پھر دفاتر میں جانے والے اپنی ڈیوٹی پر تشریف فرما کر اونگھتے ہوۓ پوری کر لیتے ہیں .
اقبال کے شاہین ہسٹری بنانے کی بجاے اپنا قیمتی وقت ہسٹری ڈیلیٹ کرنے میں برباد کرتے ہیں
اقبال کے شاہین مشاھدے میں اس قدر گہرے اور تجربہ کار ہیں کہ گلی محلوں ,اڑوس پڑوس .,حتیٰ کہ پورے شہر کی دو شیزاؤں کے شجرہ نسب تک معلوم ہوتے ہیں
.اقبال کے شاہین لایکس اور سبسکرائبرز کے چکّر میں اقبال ہی کے نام پے فیک اکاؤنٹس تک بنا لیتے ہیں .
اقبال کے شاہین درجنوں ریلیشن شپس میں ہو کر بھی سنگل ہونے کا رونا روتے ہیں .
اقبال کے شاہینوں کو اگر کوئی ڈرامہ من کو بھا جائے تو پھر اس کے سیزن ٹو کا بھی بہت بےصبری سے ویٹ کرتے ہیں ..
اقبال کے شاہین جھوٹ بھی بہت صفائی سے بولتے ہیں .
بددیانتی ,چوری ,ڈاکہ غرض ہر ایسے کام میں تاک ہیں .
ان باتوں کو دہرانے کا مقصد تحریر کو مزاح میں بدلنا نہیں ہے بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جس میں ہم سب ڈھٹائی سے جی رہے ہیں .
کیا اقبال نوجوان نسل کو اسطرح دیکھنا چاہتے تھے .
کیا اقبال کے شاہین ایسی صفات کے حامل ہونے چاہیے .ہم نے اگر اقبال کے نظریات ,سوچ کو اپنایا ہوتا تو آج مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید نہ کر رہے ہوتے .ہم دین اسلام ,نظریہ پاکستان ,اقبال کے افکار ,قائد اور اسلاف کی سب قربانیاں فراموش کر کے اندھے کنویں میں رنگین چھلانگیں مارنے کی کوششیں کر رہے ہیں .ذرا موازنہ کیجیے اقبال کے شاہین کیسے ہونے چاہیے تھے اور ہم کیسے شاہین بن چکے ہیں .افسوس کے ساتھ ہم تو حلال اور حرام کی پہچان تک بھول گئے ہیں .
پیر نصیرالدین نصیر کا کہنا ہے .کہ
کہ وہ حلال کھا رہا ہے کہ حرام چل رہا
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
نور ملائیکہ کے کالمز
-
کچھ کھٹامیٹھا اور کچھ تلخ
بدھ 29 دسمبر 2021
-
اقبال کے شاہین
جمعہ 27 نومبر 2020
-
بنت آدم اور ہمارا معاشرہ
پیر 2 نومبر 2020
-
لمحہ فکریہ
جمعہ 30 اکتوبر 2020
-
نازو پتیسے والی
پیر 26 اکتوبر 2020
-
ذرا گریبان میں جھانکیے
بدھ 21 اکتوبر 2020
-
ہوس کا نشہ
ہفتہ 10 اکتوبر 2020
-
جرگہ اور پنچایت
جمعرات 8 اکتوبر 2020
نور ملائیکہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.