نازو پتیسے والی

پیر 26 اکتوبر 2020

Noor Malaika

نور ملائیکہ

پتیسہ لے لو ,پتیسہ کھنڈ کیو دا پتیسہ ,آگیا جی ودیا پتیسہ .یہ نازو کی آواز تھی جو صبح سے شام تک گلی گلی آوازیں لگا کر خالص گھر کا بنا پتیسہ تھال میں سجا کر بیچا کرتی .یہ نازو کا معمول تھا اور مجبوری بھی اور اسکی امّاں بیچاری گھر میں سلائی مشین چلا چلا کر ادھ موئی ہوگئی تھی .شام میں واپس آکر نازو امّاں کا ہاتھ بھی بٹاتی تھی اور گھر کا کام کاج بھی  دیکھ لیتی تھی.دونوں کی کمائی ملا کر بمشکل اتنا ہوجاتا کہ دو وقت کی سوکھی روٹی اور دال چل جاتی اور اگر آنکھ بچا کر اسکی ماں کچھ سنبھال رکھتی تو بھلا ہو کرمو(نازو کا باپ ) کا,مارپیٹ کے سب ہتھیا کر نشے میں اڑا دیتا .

(جاری ہے)

بھولی نازو سدا کی  گائے اپنی جمع پونجی اپنے لاڈلے بھائی  پہ بغیر کسی حیل وحجت کے نچھاور کر دیا کرتی .مراد نازو کا اکلوتا بھائی گھر بھر کا لاڈلا اور انتہائی بگڑا نوجوان تھا .چاچا کرمو کو ہمیشہ نازو کو کوستے سنا .امی بتاتی ہیں نازو کی پیدائش پر بھی چاچا کرمو نے چاچی ثروت کو دو ٹوک کہہ دیا تھا.اگلی بار وارث نہ پیدا ہوا تو تین لفظ کہہ کر فارغ کردے گا .

اور نازو کو گود تک نہ لیا .چاچی نے منتیں مانی ,نفل ادا کیے .یا خدا جانے بھلی لوگ کی کیا ادا پسند آئی کہ چاچی کو مراد کی صورت میں طلاق سے نجات کا سرٹیفکیٹ مل گیا .نازو نے بھی اپنی توتلی زبان میں ڈھیر دعائیں کی تھیں تاکہ ابّا کی دھتکار سے کچھ رہائی ملے .لیکن ابّا نے اسکو نظر بھر کے بھی نہ دیکھا.نازو کو اسکول تک داخل نہ کروایا .چاہتے تو مفت کے گورنمنٹ اسکول ہی داخل کروا دیتے.میں نے ہمیشہ چاچا کرمو کو نازو کو ملامت کرتے سنا .

وہ تو بس اپنے سپوت کے قصیدے پڑھا کرتے تھے.باتیں بہت ساری ہیں لیکن مختصر بیان کرتی ہوں .آج چاچا کرمو بستر مرگ پر زندگی کی سانسیں گن رہا ہے.نازو بیچاری کا بوجھ بڑھ گیا ہے.اسکی ماں کی صحت ابّ مشین چلانے کی اجازت نہیں دیتی .نازو پتیسہ بھی بیچتی ہے اور سلائی کا کام خود بھی کرتی ہے اور ساتھ بچیوں کو کام سکھا کر اپنا کام  آہستہ آہستہ بڑھا رہی ہے .

والدین کے علاج کی ذمےداری بھی نازو نے اٹھا رکھی ہے.مراد جو چاچا کرمو نے مرادوں سے لیا تھا آج کہتا پھرتا ہے اماں ابّے کو دوا کی نہیں ابّ دعاؤں کی ضرورت ہے .پیسے لگانا بیوقوفی ہے .اسنے شادی کر کے اپنا بسیرا الگ کر لیا ہے .آج بھی نازو اسکے لاڈ اٹھاتی ہےپر چاچا کرمو کو ابّ احساس ہوگیا ہے کہ بیٹیاں زحمت نہیں رحمت ہوتی ہیں .آڑے وقتوں میں بیٹی ہی کام آئی .

بیٹا کہاں گیا جو باپ  کا  شیرتھا اسی نےاسکو زیرکردیا .حق ہوتا ہے بیٹی کا والدین پر کہ وہ اسے اچھی تعلیم وتربیت دے کر باشعور انسان بنائیں .لیکن آپکا من یا آپکی جیب اجازت نہ دے تو بیٹی یا تو نازو کی طرح پتیسے والی بنتی ہے.کوئی پاپڑ والی یا کوئی سڑکوں پی رلتی بھکارن . یقین کیجیے بیٹی سے زیادہ مخلص رشتہ کوئی بھی نہیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :