لمحہ فکریہ

جمعہ 30 اکتوبر 2020

Noor Malaika

نور ملائیکہ

ربیع الاول کا بابرکت مہینہ چل رہا ہیے الله تعالیٰ ہم سب کو اس مقدس مہینے کی برکتیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرماے (آمین) جتنا ہو سکے درودپاک پڑھیں اور اپنے نبی کی سنّتوں کو اپنایں.اپنے اہل وعیال عزیز و اقارب ,دوستوں احباب کو بھی اپنے ساتھ نیکیوں  کے اجتماع میں شریک کریں .
لیکن افسوس کے ساتھ مجھےلکھنا پڑ رہا ہیے کہ ہمارے ہاں عمل اور ہدایت ناپید ہوتی جا رہی ہیے .

سب والدین دل میں خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے بچے انگلش میڈیم سکولز میں پڑھیں فر فر انگریزی بولیں آکسفورڈ سلیبس کے رٹے لگا لگا کر امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کریں
گھر میں ٹیوٹرز لگواے جا رہے ہیں .

(جاری ہے)

بچوں میں وہی عادتیں پروان چڑھیں گی جو وہ اپنے گھر میں اور گردونواح میں پنپتا دیکھیں .محض نصیحت بیکار ہوتی .بچے کی مارک شیٹ پے سب مضامین کے اے ون گریڈز ہونگے اور اسلامیات کی کارکردگی زیرو ہوگی.
یہ سب  دین سے دوری کا نتیجہ ہیے .

نصاب میں دینی تعلیمات کا تناسب بہت کم ہیے .کسی بھی جماعت کے مضامین کا تجزیہ کرلیں کہیں بھی دینیات کا پرچہ پچاس نمبرز سے اوپر کا نہیں ہوگا .بارہویں جماعت کی مثال لے لیں پوری کتاب مسٹر چپس کی بچوں کو رٹوائی جاتی ہیے جسکا نہ کوئی مقصد ہے نہ ضرورت اور استعمال .کیا ہی اچھا ہو اگر ان اٹھارہ اسباق میں چپس کی بجاے ہمارے نبی کی حیات مقدسہ کے متعلق تعلیمات اور  حقائق ہوں تو کیا ہی بات ہیے .

مسلمان ہونے کے ناطے کیا صرف ہمارا کلمہ پڑھ لینا کافی ہیے? صرف پانچ وقت کی نماز کافی ہے .لیکن نہیں ہم نے تو کبھی وہ  بھی پوری نہیں ادا کی .لیکن مجال ہے جو کوئی شادی بیاہ دعوت یا پارٹی ہم مس کردیں .قرآن پاک کو محض تاقچے میں خوبصورت غلاف کے اندر لپیٹ دینا کافی ہیے. کھول کے پانچ منٹ تلاوت کا ٹائم نہیں ہے لیکن انٹرنیٹ کے لئے دن بھر کے چوبیس گھنٹے بھی کم پڑجاتے .

صدقہ خیرات کے لئے ایک سکّہ تک نہیں اپنی عیاشی کے لئےہزاروں  لاکھوں بھی کم پڑ جاتے  .ٹی وی چنیل اذان کے سنتے ہی بدل دینے والے ہم گمراہ لوگ ,نماز پے نیند کو ترجیح دینے والی بھٹکے انسان اپنے اصل سے بہت دور ہوگئے ہیں .ہمیں خود کو روکنا ہوگا.اور رہی بات نصاب اور تعلیم کی تو تبدیلی کی ضرورت جہاں بالائی سطح سے ہیے وہاں ہمارا کردار اور احتجاج بہت ضروری ہے یہ بنیاد رکھنے کے لئے .


یہ تو ہوگئی  تعلیم اور نصاب کی بات .
ابھی ذکر چل رہا تھا ربیع الاول کا .سب طرف جوش و خروش سے گلی محلوں کو سجایا جا رہا ہیے .چہار سو جشن کا سماں ہیے .محافل منعقد ہو رہی ہیں .لیکن کیا ان سب میں خلوص شامل ہیے .یہ نکتہ سوچنے کا ہیے .میں اور آپ سب جانتے ہیں یہ سب محض دکھاوا ہیے .ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ .ہماری سوچ کا عالم کچھ یوں ہیے فلاں نے اتنا پیسہ لگا کر سجاوٹ کی ہم ان سے دو گنا اہتمام کریں گے .

مرد حضرات کی نسبت خواتین میں ایسی چےمیگویاں زیادہ رجحان پا رہی ہیں .محلے کی اکثر خواتین کو یہ تک کہتے سنا کہ فلاں کے گھر محفل میں گئے تو چار گھنٹے بیٹھاہے رکھا اور آخر میں حلوےاور نان کے پیکٹس تھما دیے .فلاں نے خالی ایک دیگ دی وہ بھی چنے کے چاول .یہ تک نہ ہوا کہ روٹی سالن کا ہی بندوبست کردیتے .افسوس ہوتا ہیے ایسی جہالت پر .اسٹیج پے نعت خوانی ہو رہی ہیے تلاوت قرآن پاک ہو رہی ہیے .

پیچھے خواتین ایک دوسرے کے ساتھ سر جوڑے سرگوشیاں کر رہی ہیں .ہمیں اس ضمن میں خود کو کیسے بدلنا ہیے یہ لمحہ ہم سب کے سوچنے کا ہیے .
یہ ساری باتیں ایک طرف اتنی حیرت کی بات ہے کہ یہ تک زیربحث ہوتا ہیے کہ آج ربیع الاول کے دن فلاں کے گھر سے کوئی نیاز تبرک نہیں آیا .ہم بھی نہیں دیں گے . فلاں کے گھر سے صرف ایک پلیٹ آئی ہیے انکو بھی اتنی ہی دیں گے .


ان سب باتوں میں ایک پہلو اور بھی ہیے .ایک دو دن پہلے میرا گزر جھونپڑیوں کے راستے سے ہوا .بالکل کچی بستی تھی کوئی ایک مکان بھی پکا نہ تھا .گارے اور تنکوں سے بنے کچے گھر .جن کے بچے دن بھر برہنہ جسم اور خستہ حال پھٹے پیرہن کے ساتھ سڑکوں پے بھیک کے لئے رلتے دکھائی دیتےہیں .ان کے ہاں ہم سب سے کہیں زیادہ جوش ولولے سے محفلیں ہو رہی تھیں مرد و خواتین اوربچے بھرپور حصّہ لے رہے تھے .

وہ بغیر خاص و عام کی تقسیم کے نیازیں بانٹ رہے تھے .ہم مضبوط جیب کے ساتھ کھوٹے دل اور کھوٹی نیت رکھنے والے اور وہ لوگ خالی جیبوں کے ساتھ خلوص سے بھرپور رئیس بادشاہ ہیں .
پھر بتایں غریب وہ ہیں یا ہم .ترس کے لائق وہ ہیں یا ہم .اصلاح کی ضرورت کہاں کہاں ہیے یہ ہم سبکو اپنا اپنا تجزیہ کر کے خود سوچنا ہیے کہ ہم کہاں کہاں بھٹکے اور کیسے سدھرنا ہیے .آغاز کہاں سے کرنا ہیے اور کیسے یہ ہم سب کو خود ہی طےکرنا ہیے .پہلے ہمیں خود کو حقیقی معنوں میں بدلنا ہیے پھر ہمارے بچوں کی اصلاح ہوگی
دین کھلا اعلان ہیے .ہدایت ہیے .ابّ ہمیں خود اس ہدایت کی طرف بڑھنا ہیے .لیکن کب یہ خود طے کرنا ہوگا اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے .یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے .

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :