ڈیپریشن‎

اتوار 21 جون 2020

Palwasha Latif

پلوشہ لطیف

انسان بھی کیا عجب شے ہے ویسے تو اس دنیا میں اسکو بلند ترین عہدے پر فائزکیا گیا ہے اسے قوت گویائ اور شعور سے نواز کر اللہ تعالی نے اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔اور اس نعمت سے محرومی اسےسائنسی طور پہ حیوانات کے صف میں لا کھڑا کر دیتی ہے۔انسان کی اسی خصوصیت نے اسے تحقیق کے اونچے مراحل میں پہنچا دیا ہے ۔آج ہم اگر اتنی ترقی دیکھ رہے ہیں تو یہ انسان کی اسی خصوصیت کا نتیجہ ہےاسی انسان نے بیسویں اور انیسو یں صدی میں ترقی اور کامیابی کے وہ مراحل طے کیے ہیں جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

انسان نے اپنی زندگی کو سہل کرنے کے لئےہر وہ چیز بنا لی جسکی اسے ضرورت پڑتی ہے۔مگر اس دوڑ میں وہ جو چیز کھو چکا ہے وہ زہنی سکون ہے۔اس نے دنیا کی اس دوڑ میں خود کو اتنا مصروف کر دیا ہے کہ اسے اس بات کا گمان بھی نہ ہو سکا کہ وہ کس قیمتی سرمائے سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔

(جاری ہے)

آج ہر دوسرے دن سننے میں آتا ہے کہ فلاں بندے نے ڈپریشن کا شکار ہو کر خودکشی کرلی اور ہر دوسرا شخص انجانی قسم کی بے چینی اور مایوسی کا شکار ہے ۔

وہ ہر طرح سے فارغ ہو کر بھی مصروف دکھائی دے رہا ہے۔وجہ کیا ہے؟
سوشل میڈیا پہ بہت زیادہ انخصار کرنا۔آج اگر دیکھا جائے تو ایک انسان کے سوشل میڈیا پر لاکھوں کی تعداد میں پیروکار موجود ہیں۔مگر اندر سے وہ بلکل خالی ہوتا ہے۔وہ دنیا کو اپنا کوئ اور روپ دکھاتا ہے مگر درحقیقت وہ عجیب سی شخصیت کا شکار ہوتا ہے۔وہ جو دکھانے کی کوشش کرتا ہے یا وہ پیش کرتا ہے اس خے بلکل برعکس وہ زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔


ڈیپریشن ہے کیا ؟ڈیپریشن ایک انجانی مایوسی اور اداسی کا نام ہے۔کبھی کبھی انسان کسی انجانے خوف اور مایوسی میں گھر جاتا ہے ایک عجیب سی اداسی اور پر خلاء کیفیت اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔اور وہ کسی بھروسے مند ساتھ کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس کیفیت کا شکار ہو تا چلا جاتا ہے۔یہ مایوسی کبھی تو اسکی کسی ناکامی کا پیش خیمہ ہوتی ہے ہا کبھی نہ ختم ہونے والی محرومیوں کا نتیجہ ہوتیں ہیں۔

اور یہی مایوسی اور اداسی اسے اندر سے ختم کر رہی ہوتی ہے۔وہ انسان جو اپنی عقل اور دانشمندی کی صلاحیتوں کے لئے افضل تھا وہی انسان پھر ہر قسم کی صلاحیت سے عاری ہو جاتا ہے۔وہ اگر پھر کچھ کرنا بھی چاھ رہا ہوتا ہے تو نہیں کر پا رہ ہوتا ہے۔اب نہ تو انسان کو وہ لاکھوں پیروکار کام آرہے ہوتے ہیں اور نہ تو وہ جھوٹی شان و شوکت ۔اور وہ اسی ناکامی اور مایوسی کا شکار ہو کر آخرکار اپنی جان لینے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسکا جسم اسکا دماغ اسکا ساتھ نہیں دے پارہا ہوتا ہے۔

یہ مسئلہ کسی ایک انسان کا نہیں ہے چونکہ ہم سب اسی دور کے باسی ہیں ہم سب نے بھی اپنی زندگی کو بلاوجہ کی مصروفیات کا گڑھ بنارکھا ہے۔اور اسی لئے اج کاہر دوسرا نسان ہمارے آس پاس اسی ڈپریشن کا شکار ہے ہمیں بحیثیت انسان اور انسانیت کے اپنے آس پاس ایسے لوگوں کی نشاندہی کرنی ہوگی اور ان کی اصلاح کے ساتھ ساتھ خود کو بھی اس جھوٹے دکھاوے اور بے سبب کی مصروفیات سے عاری کرنا ہوگا۔تب ہی انفرادی طور پر ہم خود کو اشرف المخلوقات کے عہدے پر فائز کر سکیں گے اور ساتھ ساتھ معاشرتی طور پر دورے مایوس انسانوں کا حوصلہ بن سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :