یقین کا سفر

بدھ 20 مئی 2020

Palwasha Latif

پلوشہ لطیف

کبھی کبھی انسان خود کو وقت کے بہاو کے سپرد کر دیتا ہے کیونکہ وہ وقت سے لڑتے لڑتے تھک جاتا ہے۔اور پھر آخرکار ایسا وقت آجاتا ہے کہ انسان ہمت ہی ہار جاتا ہے بے بس ہو جاتا ہے لڑنا چھوڑ دیتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے یا تو انسان یقین کی حد کو چھو کر کامیاب ہو جاتا ہے اور یہ یقین کی حد اور یہ کامیابی اسے اس حقیقت سے بھی روشناس کراتی ہے کہ وہ جتنا بھی اس وقت سے لڑے گا منزل ایک ہی ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے۔

انسان جو بھی منصوبے جو بھی لائحہ عمل تیار کر لے بے سبب ہیں اگر اس میں اللہ کی رضا شامل نہ ہو۔اور اسی یقین کو آ زمانے کیلئے ہی تو اللہ نے اس دنیا میں ہر انسان کے لئے اپنی اپنی نوعیت کی آزمائش رکھی ہے۔
کوئی انسان خود میں مکمل نہیں ہوتا ہے ہر انسان یہاں اس دنیا میں کسی نہ کسی مجبوری میں گھرا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

ان میں سے کچھ تو خود ساختہ ہیں یعنی انسان کی خود سے ہی بنائی ہوئیں وہ یہی سوچتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو لوگ کیا کہیں گے یا پھر وہ خود کو لوگوں کی نظروں سے دیکھتا ہے اور اس طرح سے وہ اپنے سکون کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔

اسی طرح بہت ساری اور مجبوریاں ہیں جو کہ ہر انسان اس فانی دنیا میں برداشت کرتا ہے جیسا کہ کچھ لوگوں کے پاس اس دنیا میں سب کچھ ہوتا ہے عزت،شہرت،مال و دولت تو جسمانی طور پر کمزوری ان کے لئے آزمائش بنے گی۔ اسی طرح کچھ انسان دولت کی چاہ میں ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ کامیابی ہی اسی میں ہے کہ امیر ہو جائے۔
 کچھ کو دو وقت کی روٹی بھی پیٹ بھر کے نہیں ملتی۔

کوئی اولاد جیسی نعمت سے محروم ہے اور کوئی اسی اولاد کو کھوڑے کی ڈھیر کے سپرد کر آتا ہے۔ اب اگر یہ ساری مشکلات اور پریشانیاں حل ہو جائیں اور ہر انسان کو وہ سب ملے جس کی وہ چاہ کرتا ہے تو پھر تو انسان کا یقین تک پہنچنے کا سفر ہی نہیں ہوگا جو کہ اس دنیا کا مقصد ہے اگر انسان کی تمام خواہشات یہاں پوری ہو جائیں تو وہ اللہ تک رسائی کے رستے سے ہی بھٹک جائے۔

کیونکہ انسان بڑا ہی خودغرض پایا گیا ہے وہ مشکلات اور مصیبتوں میں تو اللہ کو یاد کر لیتا ہے مگر یہی انسان جب اس کو تمام آسائشیں حاصل ہو تو سجدہ شکر بھی ادا نہیں کرتا ہے۔
تو ہم اپنی چھوڑی ہوئی بات پر واپس آتے ہیں کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں کہ یر انسان کو امتحان سے گزرنا پڑے گا اور اسی امتحان سے وہ گزر کر اپنی آخری اور دائمی منزل کا تعین کرے گا۔

اور بحیثیت مسلمان ہمارا یہی کامل ایمان ہے کہ ہماری کامیابی جنت کے حصول میں ہے اور اس جنت تک پہنچنے کا رستہ دنیا کی آزمائشوں سے ہو کر جاتا ہے۔مگر شرط یہ ہے کہ وہ ان آزمائشوں سے نکلنے کا یا پھر ان کو ہرانے کا کہ انسان یقین کی حد کو چھو جائے۔اور یہ حد تب حاصل ہوگی جب ہم انسان اللہ کی دی ہوئی انگنت نعمتوں کا شکر ادا کریں اور ان نعمتوں کا موازنہ اپنے عمل سے کریں یقیننا یہی ہمیں یہ یقین دینے کیلئے کافی ہوگا کہ جتنا ہمیں عطا کیا گیا ہے میں تو اسکے لائق بھی نہیں تھا اور یہی اسے
اس کے منزل کے قریب کرے گا۔

جب انسان اس حد خو پالے تو وہ بے حد پرسکون ہو جاتا ہے۔اسے اس دنیا کی بے معنی چکاچوند متاثر نہیں کرتی۔نہ تو اسے بے ضمیر دولت کی چاہ اپنے شکنجے میں جھکڑ سکتی ہے اور نہ شہرت۔وہ بس اس بات پر صبر اور قناعت اختیار کرتا ہے کہ یہ دنیا نظر کے دھوکے کے سوا کچھ نہیں اور یہاں کوء ختنا ہی کامیاب کامران ہوجائے آخرکار اسے موت کا ہی سامنا کرنا پڑیگا اور یہ سب دولت،شہرت یہیں رہ جائے گا۔

نظیر آکبر آبادی کیا خوب کہتے ہیں:
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں،مت دیس بدیس پھر مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا بھینسا بیل شترکیا کوئی پلا سر بھارا
کیا گیہوں چاول موٹھ مٹر،کیا آگ دھواں کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
کچھ کام نہ آوے گا تیرے، یہ لعل زمرد سیم و زر
جو پونجی بات میں بکھرے گی پھر آن بنے جاں اوپر
نقارے نوبت بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر
کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھپر
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن
ٹک غافل دل میں سوچ ذراہے ساتھ لگا تیرے دشمن
کیا لونڈی باندی دائی دواکیا بند چیلا نیک چلن
کیا مندر مسجد تال کنویں کیا گھاٹ سرا کیا باغ چمن
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
جب مرگ بنا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا
کوئی ناج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سینے اورٹانکے گا
ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو ئاک لحد کی پھانکے گا
اس جنگل میں پھر آھ نظیر اک بھنگا آن نہ جھانکے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :