
حرمتِ رسولﷺ پہ قُربان
جمعرات 22 جنوری 2015

پروفیسر مظہر
(جاری ہے)
آج 12 افراد کے مرنے کوفرانس کا”نائن الیون“ کہا جارہاہے لیکن اِن عالمی درندوں کو عراق اور افغانستان کے لاکھوں شہیدوں کا لہو کیوں یاد نہیں رہتا ، فلسطین کے مظلوموں کی آہ وبکا کیوں سنائی نہیں دیتی اور کشمیرمیں بھارتی افواج کے مظالم کیوں نظرنہیں آتے ۔اقوامِ عالم کے اِن درندوں سے سوال کیا جاسکتاہے کہ کیا آزادیٴ اظہارکا یہی مطلب ہے کہ ایسا مواد شائع کیا جائے جو دنیاکے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دِل آزاری اوراشتعال کا باعث بنے ۔چلیں مان لیا کہ مغرب میں آزادیٴ اظہارکا تصور یہی ہے توپھر ”ہولوکاسٹ“ اورگیس چیمبرزکو جھوٹ کا پلندہ قرار دینے والوں کواُلٹا کیوں لٹکا دیاجاتاہے ؟۔کیا صرف اِس لیے کہ اِس سے یہودیوں کی دل آزاری ہوتی ہے ؟۔یہودی توعام انسان ہیں لیکن میرے آقاﷺ تو نبی آخر الزماں ہیں اور ہمارے ایمان کاجزوِ لاینفک کہ ہمارا دین ہی اتنی دیرتک مکمل نہیں ہوتا جب تک آقاﷺ ہمیں کائینات کی ایک ایک چیزسے پیارے نہ ہوجائیں ۔جب حبِ رسول کا یہ عالم ہوتو پھر بھلا آقاﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کو کیسے معاف کیا جاسکتاہے ۔اگر مغربی معاشرہ آزادیٴ اظہارکے نام پر چارلی ہیبڈو جیسے غلیظ میگزین کے ملعون مالکان کو نہیں روک سکتا توپھر آقا کے دیوانوں اور پروانوں سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ ابلیسیت کے اِن علمبرداروں کوواصلِ جہنم نہیں کریں گے ۔
عالمِ اسلام کے حکمران اگر متحد ہوکر اقوامِ متحدہ میں احتجاج کریں تو یقیناََ آزادیٴ اظہارکی حدودوقیود کا تعین کیا جاسکتاہے لیکن صدحیف کہ ہمارے حکمران منصورِ حقیقت ہیں نہ سقراط کہ سچ کی خاطر سولی پہ چڑھ جائیں یا زہرکا پیالہ پی لیں ۔اُنہیں تو ہرلمحہ عالمی درندوں کے جبڑوں میں پھنسا اپنا اقتدار بچانے کی فکر ہوتی ہے اسی لیے وہ سچ کوبھی اُس ناجائز بچے کی مانند چھپائے رکھتے ہیں جس کے ظاہرہونے پر تہمت کاخوف ہو ۔وہ توعالمی درندوں کے قدموں میں ہی حیاتِ جاوِدانی کا خواب دیکھتے ہیں لیکن اِس خواب کو بالآخر موت کے ہونٹوں کو بوسہ دینا ہی پڑتاہے ۔اسی حیاتِ جاوِداں کی خواہش کبوترکو بلّی کے سامنے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کرتی ہے اوروہ بلّی کا لقمہٴ تر بن جاتاہے ۔لیکن ہمارے حکمران یہ ابدی حقیقت یکسر فراموش کر چکے کہ
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
مغرب کوکیا الزام دیں کہ ہمارے ہاں کے سیکولر دانشور بھی آزادیٴ اظہارکے بارے میں وہی رائے رکھتے ہیں جو مغرب کی پسندیدہ ہے ۔اِن گستاخانہ خاکوں پر لکھتے ہوئے ہمارے سیکولر دانشوربہ اندازِحکیمانہ اِن کا رُخ مذہبی انتہاپسندی کی طرف موڑدیتے ہیں اور اپناپورا زور دینی جماعتوں کی نفرین پر صرف کردیتے ہیں ۔ایسے ہی ایک سیکولر دانشور لکھتے ہیں”اگر ظلم وجبرہو تو اُس کے مقابلے پر زبان کھولنا بلکہ گولی تک چلاناایک قابلِ قدر جذبہ قراردیا جاسکتاہے لیکن علمی وفکری اختلاف پر تشددکرنا جہالت اورحیوانیت کے سوا کچھ نہیں “۔کوئی اُس ارسطوئے دوراں سے پوچھے کہ کیا گستاخانہ خاکے علمی وفکری اختلاف کے زمرے میں آتے ہیں ؟۔کیا ماں بہن کی گالی علمی وفکری اختلاف ہے ؟۔ اگرنہیں توپھر کیاایسی گستاخی پر خاموشی اختیارکرکے ہم مسلمان کہلوانے کے حقدار ٹھہرتے ہیں؟۔ عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے تو اِن گستاخانہ خاکوں کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا ”اگرکوئی میری ماں کو گالی دے گاتو اُسے میرے مُکے کے لیے تیار رہناچاہیے “۔لیکن کیا ہماراایمان اتناہی کمزور ہوچلا کہ ہم اپنے احتجاج کو عقل وخرد کے پیمانوں پر ناپنا شروع کردیں۔لاریب اِن گستاخانہ خاکوں سے میرے آقا کی عظمتوں پر کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اُن پر تورب العالمین اوراُس کے فرشتے بھی درود بھیجتے ہیں ، آپ تو عالمین کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے ، آپ کوتو جنت کے افضل ترین مقام ”مقامِ محمودہ“کی نوید سنادی گئی اور زندگی میں ہی آسمانوں کی سیر کروادی گئی اِس لیے وقت کے فرعونوں ،شدادوں ،نمرودوں اور ملعونوں کے غلیظ چھینٹوں سے آپ کی ذات ِ اقدس پر تو کچھ اثر نہیں پڑتا لیکن یہ معاملہ میرے ایمان کاہے اور امتحان میرے عشق کا ۔کوئی اقوامِ مغرب کو جاکر یہ کہہ دے کہ بات جب ہمارے نبیﷺ کی ذات پر پہنچے گی توپھر ہماری جنوں خیزی کے سامنے کوئی بند نہیں باندھ سکے گا ۔یہ اُن دو عربی نژاد بھائیوں کا جنوں ہی توتھا جس نے سکیورٹی کے مضبوط ترین جال توڑکر اُن خبیثوں کو واصلِ جہنم کیا جو متواتر میرے آقاﷺ کی شان میں گستاخی کر رہے تھے ۔وہ شہید ہوئے لیکن اپنے عشق کی صداقتوں پر اپنے لہوسے مہرِتصدیق ثبت کرگئے ۔اسی لیے توکہتے ہیں
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اِس جان کی کوئی بات نہیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر مظہر کے کالمز
-
ریاستِ مدینہ اور وزیرِاعظم
اتوار 13 فروری 2022
-
وحشت وبربریت کا ننگا ناچ
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خواب اور قائد رحمہ اللہ علیہ کی کاوشوں کا ثمر
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
رَو میں ہے رَخشِ عمر
جمعہ 30 جولائی 2021
-
یہ وہ سحر تو نہیں
جمعہ 2 جولائی 2021
-
غزہ خونم خون
ہفتہ 22 مئی 2021
-
کسے یاد رکھوں، کسے بھول جاوٴں
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
یہ فتنہ پرور
ہفتہ 20 مارچ 2021
پروفیسر مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.