
احتساب یا استحصال
ہفتہ 29 جولائی 2017

پروفیسر مظہر
(جاری ہے)
جسٹس منیرنے ”نظریہٴ ضرورت“ ایجاد کیا اور ایک آمر کے ماورائے آئین اقدامات کی توثیق کی ۔ پھر یہی نظریہٴ ضرورت ہر آمر کے کام آتا رہا ۔ جرنیل حکومتوں کے تختے اُلٹتے رہے اور ججز نظریہٴ ضرورت کے تحت اُن کے غیر آئینی اقدامات کی توثیق کرتے رہے ۔ ایوبی آمریت سے مشرفی آمریت تک یہی نظریہٴ ضرورت جاری وساری رہا ۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جب پرویز مشرف نے نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹا تو افتخار محمد چودھری سمیت تقریباََ تمام جج صاحبان نے پی سی او کے تحت نہ صرف حلف اُٹھایا بلکہ آمر کو تین سالوں کے لیے حقِ حکمرانی بھی بخش دیا ۔ لیکن جب پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی لگا کر ججز کو برطرف کیا تو پوری قوم سڑکوں پر نکل آئی ۔ پرویز مشرف کی حکومت کا خاتمہ ہوا ۔ پیپلزپارٹی نے اقتدار سنبھالا اور بالآخر بعد از خرابیٴ بسیار ججز بحال ہوئے۔ 31 جولائی 2009ء کو افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چودہ رکنی بنچ نے پرویز مشرف کی ایمرجنس کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے اُن تمام ججز کو فارغ کر دیا جنہوں نے دوسرے پی سی او کے تحت حلف اُٹھایا تھا ،حالانکہ پی سی او ججز تو وہ خود بھی تھے۔ حیرت ہے کہ اگر 1999ء کا پی سی او حلال تھا تو 3 نومبر 2007ء کا پی سی او حرام کیسے ٹھہرا؟۔ دَست بستہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ ”جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔
عدلیہ کی اِس مختصر سی تاریخ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ارضِ وطن کے اصل ”زور آور“ تو عدل کی سب سے اونچی مسند پر جلوہ افروز یہی اصحاب ہیں جن کے جو جی میں آئے ، وہی قانون بن جائے یا پھر اسٹیبلشمنٹ کہ جس کے سامنے پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا ۔ ہم نے تو یہی دیکھا کہ عدلیہ اور فوج کا ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہا اورآج تک اِن کا احتساب ہوا ، نہ کبھی ہو گا ۔تازہ ترین مثال ہمارے سامنے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنا تو مقتدر حلقوں میں ہلچل مچ گئی اوراُسے بچانے کے لیے سبھی فعال ہو گئے ۔جب میاں نواز شریف کی طرف سے مقتدر حلقوں کو مثبت پیغام نہ پہنچا تو اُنہوں نے میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خاں کو یکے بعد دیگرے وزارتِ عظمیٰ کی پیش کش کر ڈالی۔ اُن کے انکار پر مقتدر حلقوں نے حکومت پر اپنادباوٴ بڑھا دیا۔ اُدھر عدلیہ پرویز مشرف کے ای سی ایل سے نام نکالنے کے معاملے پر الگ کھڑی ہو گئی اور بالآخر حکمرانوں نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے میں ہی عافیت جانی اور زور آوروں کی جیت ہوئی۔
اب عدل کے ایوانوں میں آرٹیکل 62/63 کا بہت غلغلہ ہے ۔ یہ کیس کچھ نا سمجھ سیاستدان عدالت میں لے کر گئے ۔اب سروں پہ لٹکتی اِس تلوار سے کون بچ پائے گا ، کوئی نہیں جانتا ۔ اگر میاں نوازشریف اِس آرٹیکل کی زد میں آتے ہیں تو پھر صرف میاں صاحب ، کپتان اور آصف زرداری ہی نہیں ، پوری پارلیمنٹ ، چاروں صوبائی اسمبلیاں اور سینٹ بھی فارغ ہو جائے گی کیونکہ یہ آرٹیکلز ضیاء الحق کا ایسا تحفہ ہیں جن کے معیار پر کوئی جج ، کوئی جرنیل اور کوئی پارلیمنٹیرین پورا اُتر ہی نہیں سکتا ۔ اِن آرٹیکلزکے مطابق جو شخض اسلامی تعلیمات کا مناسب علم نہ رکھتا ہو ، کبیرہ گناہوں سے اجتناب نہ کرتا ہو ،احکامِ الٰہی کی پابندی نہ کرتا ہو ،اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور صادق و امیں نہ ہو ، وہ پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل نہیں۔ لیکن ہمارے ہاں تو یہ عالم ہے کہ سابق وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک کو سورة اخلاص تک نہیں آتی ۔ دراصل ضیاء الحق یہ آرٹیکل اپنی آمریت کو دوام بخشنے کے لیے سامنے لایا حالانکہ وہ خود بھی اِس معیار پر پورا نہیں اترتا تھا ۔ اُس نے قوم سے نوے دنوں میں عام انتخابات کروانے کا وعدہ کیا اور پھر صاف مکر گیا ۔اُس کی مجلسِ شوریٰ میں کون تھا جو اِس معیار پر پورا اترتا تھا؟۔ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں اگر آرٹیکل 62/63 کو مدِنظر رکھا جاتا تو شاید کوئی ایک شخص بھی پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل قرار نہ پاتا۔ یہ آرٹیکل اسلامی نظام کے عین مطابق ہیں لیکن پہلے مکمل اسلامی نظام تو لائیں۔ صرف” اسلامی جمہوریہ “ کہہ دینے سے کوئی ملک اسلامی بن جاتا ہے نہ جمہوری ۔
اگر میاں نوازشریف کی اہلیت کا فیصلہ ”صادق و امین“ کی بنیاد پر ہونا ہے تو دست بستہ عرض ہے کہ تین رکنی بنچ کے انتہائی محترم جج صاحبان پہلے یہ طے کر لیں کہ کیا وہ خود صداقت و امانت کے اُس معیار پر پورے اُترتے ہیں جو اِن آرٹیکلز کا تقاضا ہے ۔ عدلیہ کا ماضی تو بہرحال اِس کی تصدیق نہیں کرتا ۔ اگر شریف خاندان ناقابلِ تردید ثبوتوں کی بنیاد پر کرپشن میں لتھڑا ہوا پایا جاتا ہے تو پھر اُسے نشانِ عبرت بنا دینا چاہیے لیکن اگر چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے کسی ”نظریہٴ ضرورت“ کے تحت وزیرِاعظم کو نااہل قرار دیا گیا تو یہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی بربادی کا باعث بن سکتا ہے ۔معزز بنچ کو یہ بھی مدِنظر رکھنا ہوگا کہ پوری دنیا کی نظریں اُس کے آمدہ فیصلے پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ اِسی فیصلے سے ملکی جمہوریت اور مستقبل کا تعین ہو گا ۔اُن کا فیصلہ تاریخ میں ایسی نظیر بن جانی چاہیے کہ پھر کسی کو یہ کہنے کی ہمت نہ ہو کہ احتساب نہیں ،استحصال ہوا ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر مظہر کے کالمز
-
ریاستِ مدینہ اور وزیرِاعظم
اتوار 13 فروری 2022
-
وحشت وبربریت کا ننگا ناچ
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خواب اور قائد رحمہ اللہ علیہ کی کاوشوں کا ثمر
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
رَو میں ہے رَخشِ عمر
جمعہ 30 جولائی 2021
-
یہ وہ سحر تو نہیں
جمعہ 2 جولائی 2021
-
غزہ خونم خون
ہفتہ 22 مئی 2021
-
کسے یاد رکھوں، کسے بھول جاوٴں
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
یہ فتنہ پرور
ہفتہ 20 مارچ 2021
پروفیسر مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.