
انجامِ گلستاں کیا ہوگا
جمعہ 30 مارچ 2018

پروفیسر مظہر
(جاری ہے)
آصف زرداری کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے ۔یقیناََ اُنہیں ادراک ہوگیا تھا کہ ”بادشاہ گروں“ کے چرنوں میں ہی عافیت ہے۔
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پَلا ہو کرگسوں میں
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ و رسمِ شاہبازی
کرگسوں میں گھِرے اقبال کے شاہیں اب ستاروں پہ کمندیں ڈالنے کی بجائے ”میوزیکل کنسرٹ“ کے شیدائی، رہنماوٴں سے سیکھی غیرپارلیمانی زبان کا چسکا ،جس کا سوشل میڈیا پر بے محابہ استعمال۔ یہ مُردار خور کرگس ہی تو ہیں جو میرے وطن کے رَہبر ورَہنماء بنے بیٹھے ہیں، جنہیں مرغوب ہے تو فقط کرسیٴ اقتدار، مبّرا کوئی نہیں، سیاستدان نہ دین کو سرِبازار بدنام کرنے والے۔ غلیظ گالیاں بکنے والا تحریکِ لبّیک کا سربراہ خادم حسین رضوی مفرور قرار،جس کی گرفتاری کا حکم صادر ہوچکالیکن گرفتاری ناممکن کہ حکمرانوں میں اِس کی ہمت ہے نہ سَکت۔ اگر ہمت ہوتی تو وہ فیض آباد دھرنے کے دَوران اربوں روپے کی جائیداد تباہ کر پاتا نہ عدلیہ سمیت مختلف ریاستی اداروں کی توہین و تضحیک کر پاتا۔ اُس نے تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محترم ثاقب نثار تک کو نہیں بخشا لیکن حیرت ہے کہ اُسے آج تک توہین عدالت کا نوٹس تک نہیں ملا۔
ِ تحریکِ لبیک کا مرکزی ناظمِ اعلیٰ کہتا ہے ” حکومت حالات خراب کر رہی ہے ۔ خادم حسین رضوی کے وارنٹ گرفتاری سے فیض آباد معاہدہ سبوتاژ ہوگا۔ گارنٹی دینے والوں کو کردار ادا کرنا ہوگا“۔ سوال مگر یہ کہ اِس معاہدے پر عمل درآمد کی گارنٹی کس نے دی؟۔ کیا پاک فوج نے جس کے ایک محترم میجر جنرل صاحب کے اِس معاہدے پر دستخط ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر عدالت فوج کو خادم رضوی کی
گرفتاری کا حکم دے جس نے یہ معاہدہ کروایا، حکمران بیچارے تو تب بھی بے بَس تھے اور اب بھی ہیں لیکن فوج کے ترجمان تو بہت پہلے ہی یہ وضاحت کر چکے کہ میجر جنرل صاحب نے بطور گواہ دستخط کیے تھے ،بطور” گارنٹر“ نہیں۔ خادم رضوی کی گرفتاری تو بہت دور کی بات، حکمران تو آج تک اپنے ہی ایک کارندے (راوٴا نوار)کوبھی گرفتار نہیں کر سکے جو نہ صرف نقیب اللہ محسود بلکہ دیگر کئی بے گناہوں کے قتل میں ملوث ہے۔ ”بابا رحمت “ کہتے ہیں ” اگر راوٴ انوار پیش ہوگیا تو بچ جائے گاورنہ اُسے کہیں اور تحفظ نہیں ملے گا۔ عدالت یہ معلوم کرکے رہے گی کہ راوٴ نواز کے سہولت کار کون لوگ ہیں۔ یہ واضح ہے کہ راوٴانوار کے سہولت کاروں کو سپریم کورٹ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ اگر معلوم ہوا کہ کوئی سہولت کار ہے تو اُس کے خلاف بھی کاسخت کارروائی ہوگی“۔ حیرت ہے کہ پاکستان کی تمام خفیہ ایجنسیاں راوٴ انوار کی تلاش میں ہیں لیکن وہ ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکا۔ شاید وہ ایسے سہولت کاروں کی پناہ میں ہو جہاں جاتے ہوئے ہر کسی کے پَر جلتے ہوں۔ اِسی لیے آئی جی سندھ ہر پیشی پر اپنی بے بَسی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔
عدل کے اونچے ایوانوں کے باسیوں کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ آخر ”رعبِ عدل“ ناتواں کیوں ہوتا جا رہا ہے۔ کہیں یہ متنازع فیصلوں کا شاخسانہ تو نہیں؟۔ جولائی 17 سے اب تک کیے گئے فیصلے کیوں متنازع ہوئے اور عوام کی کثیر تعداد اِن فیصلوں کو ماننے سے انکاری کیوں ہے؟۔ پرنٹ ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر یہ فیصلے تنقید وتنقیص کا نشانہ کیوں بن رہے ہیں اور میاں نوازشریف ہر اجتماع میں فیصلوں کو متنازع اور جانبدارانہ کیوں قرار دے رہے ہیں؟۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ قومی درد سے معمور ہیں ،اِسی لیے تو بے چینی کے عالم میں جا بجا گھومتے رہتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ایسے متنازع فیصلوں کے لیے ”فُل کورٹ“ تشکیل دے کر اِن پر نظرِ ثانی کی جا سکے؟۔ دَست بستہ عرض ہے کہ اگر افراتفری کا یہی عالم رہا تو پھر اظہرمِن الشمس کہ انجامِ گلستاں کیا ہوگا۔ پھر آنے والا مورخ دیگر اداروں کے ساتھ آپ کو بھی معاف نہیں کر پائے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر مظہر کے کالمز
-
ریاستِ مدینہ اور وزیرِاعظم
اتوار 13 فروری 2022
-
وحشت وبربریت کا ننگا ناچ
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خواب اور قائد رحمہ اللہ علیہ کی کاوشوں کا ثمر
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
رَو میں ہے رَخشِ عمر
جمعہ 30 جولائی 2021
-
یہ وہ سحر تو نہیں
جمعہ 2 جولائی 2021
-
غزہ خونم خون
ہفتہ 22 مئی 2021
-
کسے یاد رکھوں، کسے بھول جاوٴں
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
یہ فتنہ پرور
ہفتہ 20 مارچ 2021
پروفیسر مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.