
لالہ جی ! جان دیو
منگل 21 اکتوبر 2014

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
ہماری دعائیں خالق و مالک کے ہاں مستجاب نہیں کہ اعمال کا دارومدار تو نیتوں پر ہوتاہے اور ہماری نیتوں کافتور اظہر من الشمس جبکہ لوحِ مقدر پہ لکھ دیا گیاکہ
نہ ہوجس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اسی اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت گزشتہ ایک ماہ سے پاکستان کے خلاف کھلی جارحیت کا مرتکب ہورہا ہے ۔کنٹرول لائن اور ورکنگ باوٴنڈری پر مسلسل گولہ باری جاری ہے اور آئی ایس پی آر کے مطابق یکم اکتوبر سے اب تک ورکنگ باوٴنڈری کی چوبیس اور کنٹرول لائن کی چھبیس مرتبہ خلاف ورزی ہو چکی جس سے کئی شہادتیں ہوئیں اور ہزاروں بے گھربھی ہوئے۔یہ شاید اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیرِاعظم نوازشریف کی تقریرکا ردِعمل ہو جہاں اُنہوں نے عوامی امنگوں کے عین مطابق کشمیر کے بارے میں واضح اوردوٹوک موٴقف اختیار کرتے ہوئے عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کی کوشش کی لیکن ہمارے ”بھولے“ وزیرِاعظم اتنابھی نہیں جانتے کہ عالمی ضمیر ہے کہاں جسے وہ جھنجھوڑنے نکلے تھے۔اب توپوری دُنیامیں ”جس کی لاٹھی،اُس کی بھینس“پرہی عمل کیا جاتاہے۔ عالمی”ڈان“ اور دہشت گرد امریکہ،دوسروں پر دہشت گردی کا الزام لگاکر مَن مانی کرتا رہتاہے ۔وہ تو پاکستان کوبھی بقول آمر مشرف” نشانِ عبرت“ بنادیتا لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکرہے کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے جسے ہم نے بقول چودھری شجاعت حسین شب برات پر پھلجھڑیوں کی جگہ چلانے کے لیے نہیں رکھ چھوڑا۔امریکہ اب اپنے”دیس“ میں تو پایانہیں جاتا۔وہ توہمارے ہی دائیں بائیں ہے اور خوب جانتا ہے کہ یہ قوم ایٹم بم چلانے سے بھی گریز نہیں کرے گی ۔اسی لیے وہ آنکھیں بھی دکھاتا ہے اور محتاط بھی رہتا ہے لیکن شاید ہماراپڑوسی ہندوستان کسی بہت بڑی غلط فہمی کاشکار ہے۔ 2002ء میں گجرات کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے انتہاپسند نریندرمودی نے جب سے عنانِ حکومت سنبھالی ،سرحدوں کی خلاف ورزی شروع ہوگئی جو تاحال جاری ہے۔مودی جی سے بھلا کون بہتر جانتا ہوگا کہ پاکستان کی کُل آبادی سے بھی چار گُنا زیادہ لوگ تو ہندوستان میں خطِ غُربت سے نیچے بستے ہیں ،50کروڑ سے زائد کے پاس باتھ روم کی سہولت نہیں، 40 کروڑ کورے ان پڑھ اور لگ بھگ اتنے ہی بجلی کی سہولت سے محروم ۔اُدھر پاکستان میں بھی سب اچھّا نہیں ۔حالات دونوں ملکوں کے تقریباََ ایک جیسے ہی ہیں۔اِس مسلمہ حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں کہ قوموں کی تقدیر یں جنگ سے نہیں امن سے بدلا کرتی ہیں اب مودی صاحب خود ہی فیصلہ کرلیں کہ اُن کے لیے امن بہتر ہے یا جنگ؟۔ اُنہیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ شہادت ہمیشہ مسلمان کا مطلوب ومقصود رہاہے لیکن ہندولالے کو زندگی بڑی عزیز ہوتی ہے۔ہم پر حملہ کرکے لالہ جی کے ہاتھ توکچھ نہیں آئے گاالبتہ جب ہمارے ایٹمی میزائل محوِپرواز ہوئے تو پھر ”تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں“۔ہم دلّی کے لال قلعے پر سبزہلالی پرچم لہرانے کے زعم میں مبتلاء ہیں نہ ایسا کوئی خواب دیکھتے ہیں لیکن کسی بھی جارحیت کی صورت میں پوری دِلّی کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے کی سکت ضروررکھتے ہیں۔ہم امن کی خواہاں ہیں لیکن ربّ ِ کریم کے حکم کے عین مطابق ہمارے گھوڑے بھی تیار ہیں۔جیت کے غازی کہلائیں گے اور مَر گئے تو شہید، گویا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ،ہارے بھی تو بازی مات نہیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.