
اصلی تے وَڈاشیر کون ؟؟؟
ہفتہ 10 جون 2017

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
پَس ثابت یہ ہوا کہ شیر کا انتخابی نشان رکھ لینے سے کوئی شیر نہیں بن جاتا ۔
پھر ہمارے ارسطوانہ ذہن نے سوچا کہ اگر نوازلیگ نہیں تو پھر کون؟۔
کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ” اصلی تے وَڈاشیر“ تو پرویز مشرف تھا جس نے ہواوٴں میں ہوتے ہوئے بھی ملک پر قبضہ کر لیا اور طیارہ سازش کیس میں پورے میاں خاندان کو سعودی عرب کی راہ دکھائی ۔شاید اُس وقت اُس کے ذہن میں یہ خیال ہو کہ میاں خاندان اللہ کے گھر میں جا کر اللہ اللہ کرے اور وہ حکومت۔ اُسے یوں بھی شیر کہنے کو جی چاہتا تھا کہ اُس کی ایک خواہش پر ہماری محترم عدلیہ نے بِن مانگے اُس کا تین سال کے لیے حقِ حکمرانی تسلیم کر لیا۔ ہم اُن جج صاحبان کو دو وجوہات کی بنا پر ”پی سی او ججز“ نہیں کہہ سکتے ۔ ایک وجہ تو یہ کہ توہینِ عدالت کا خطرہ ہے ،بھلا ڈھلتی عمر کے اِس حصّے میں جیل کون جائے۔ دوسری وجہ یہ کہ شاید یہ بھی کوئی ”نظریہٴ ضرورت“ ہی ہو اور ہم ، آپ سبھی جانتے ہیں کہ نظریہٴ ضرورت تو پیدا ہی ملک و قوم کی بہتری کے لیے کیا جاتا ہے،اِس لیے اگر ہماری انتہائی محترم عدلیہ نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا لیا تو کیا بُرا کیا۔ پرویز مشرف کے اور بھی بہت سے کارہائے نمایاں ہیں جن کی اِس ننھے مُنے کالم میں گنجائش ہر گِز نہیں لیکن مسٴلہ تو وہاں آن پڑا جب بَبر شیر (امریکہ) کی ایک دھاڑ پر ہمارا شیر بیچارہ بکری بَن گیا ۔ہم جو کپتان صاحب کے ساتھ مِل کر پرویز مشرف کی عظمتوں کے ترانے گایا کرتے تھے ،اتنے شرمندہ ہوئے کہ کسی کو بھی شیر کہنے سے توبہ کر لی ۔ہمیں سمجھانے کی بہت کوشش کی گئی کہ پرویز مشرف نے تو محض پاکستان بچانے کی خاطر وہ کچھ بھی مان لیا جس کا امریکہ نے تقاضہ ہی نہیں کیا تھا۔ اُس کا تو نعرہ ہی ”سب سے پہلے پاکستان“ تھا جس کا مطلب قومی سلامتی کو اولیت تھی لیکن ہم نے کہا کہ نہ بابا نہ ! ”سب سے پہلے پاکستان“ کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان کی عزت و وقار کو سب سے پہلے داوٴ پر لگا کر طبلہ بجایا جائے اور سارنگی پر ملہار کی تانیں اُڑائی جائیں ۔ اِس لیے پرویز مشرف شیر تو کیا ،ہم اُسے گیدڑ بھی کہنے کو تیار نہیں۔
ہماری کسی کو شیر کہنے سے توبہ اُس وقت ”چُوراچُور“ ہوگئی جب 2011ء میں مینارِ پاکستان لاہور کے سائے تلے ایک طوفان اُٹھا ،نام اُس کا ”سونامی“ رکھا گیا۔ قیادت کپتان صاحب کے حصّے میں آئی اور دَست و بازو شیخ رشید ،شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین جیسے ”دَبنگ“ قرار پائے۔ یہ وہ وقت تھا جب کپتان صاحب کے خلاف قلم اُٹھاتے ہوئے بھی ڈَر لگتا تھا اور کوئی ایک لکھاری بھی ایسا نہیں تھا جس نے کپتان صاحب کے خلاف کچھ لکھنے کی ہمت کی ہو ۔اگر کسی نے اپنا ”ساڑاپھوکنے“ کی کوشش بھی کی تو ایسے الفاظ میں ،جو شہد میں بھگو کر لکھے گئے ۔تب ہم نے سوچا کہ اصلی شیر تو ہمارے کپتان صاحب ہی ہیں ۔ہم ”ایویں ای“ اِدھر اُدھر تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے ۔یہ تو وہی بات ہوئی ”بچہ بگل میں ،ڈھنڈورا شہر میں“۔
بہرحال ہماری تلاش تمام ہوئی اور ہم آج بھی کپتان صاحب کو ”اصلی تے وَڈا“ شیر سمجھتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ حاسد اُنہیں ضِّدی ،ہَٹ دھرم، خود پسند اور نرگسیت کا شکار سمجھتے ہیں ۔الزام تو اُن کی ذات پر اور بھی کئی لگتے ہیں لیکن ہم نے غیرپارلیمانی گفتگو سے ہمیشہ گریز ہی کیا ہے ۔ہمیں اُن کی جو ادا پسند ہے وہ ”میں نہ مانوں“ کی رَٹ ہے ۔بھئی ! بھلا وہ شیر ہی کیا جو مان جائے ۔شیر مانتا نہیں ،منواتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ پاناما لیکس کا فیصلہ آیا تو نوازلیگ نے خوشیاں منائیں ،مٹھائیاں تقسیم کیں ،اکثریتی فیصلے کی تحسین کی اور ایک دوسرے کو مبارک باد دی لیکن چونکہ ہمارے ”شیر“ کو یہ فیصلہ پسند نہیںآ یا اِس لیے وہ جسٹس کھوسہ کے اختلافی نوٹ کو لے کر باہر نکل پڑا اور اُن کے ریمارکس کو گلی گلی عام کر دیا۔ کپتان جہاں بھی گیا ،لوگوں کو ”گاڈ فادر“ نامی ناول کے قصے سناتا اور میاں نواز شریف کو جھوٹا قرار دیتا رہا ۔پھر عدلیہ کو مجبوراََ یہ کہنا پڑا کہ فیصلہ اکثریتی ہوتا ہے ،اختلافی نوٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ بے خوف کپتان پر اِس کا ”کَکھ“ اثر نہ ہوا اور وہ آج بھی اپنی بات پر قائم ہے۔البتہ اُس نے گاڈ فادر کے حوالے دینا اُس وقت بند کیے جب ایک اور محترم جج نے ”سِسلی مافیا“ کا ذکر چھیڑ دیا۔ آجکل ہمارے کپتان صاحب لوگوں کو سِسلی مافیا کے قِصے سنا رہے ہیں۔
رہی بات جے آئی ٹی کو تسلیم نہ کرنے کی تو عرض ہے کہ کپتان صاحب نے پہلے یہ ضرور کہا تھا کہ جے آئی ٹی انصاف کرنے سے قاصر رہے گی ،اِس لیے اُنہوں نے جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا لیکن جب اُس نے دیکھا کہ یہ جے آئی ٹی تو میاں خاندان کے پیچھے بندوق تانے بھاگ رہی ہے تو کپتان نے اِس پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرنے میں بھی دیر نہیں لگائی ۔اگر کوئی بَدبخت اِسے کپتان کا یو ٹَرن کہے ، تو کہتا پھرے ،ہمارے نزدیک اِس سے کپتان کی صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے ، نہ ہماری صحت پر ۔صاف نظر آ رہا ہے کہ جے آئی ٹی کا فیصلہ میاں خاندان کے خلاف ”آوے ای آوے“ اور وہ اُن کوپھڑکاوے ای پھڑکاوے“۔ لیکن اگر کل کلاں جے آئی ٹی اپنی تحقیقات میں میاں خاندان کو بے گناہ قرار دیتی ہے تو کیا کپتان صاحب کا یہ حق نہیں بنتا کہ وہ دھاڑتے اور یہ کہتے ہوئے باہر نکلیں کہ
میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.