
پُہنچی وہیں پہ خاک
پیر 21 جون 2021

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
اب اُنہیں کون سمجھائے کہ ایسا صرف آمریت میں ہوتاہے، جمہوریت میں نہیں۔
اِسی آمرانہ رویے کی بدولت گزشتہ 3 سالوں میں ملکی ترقی کا پہیہ رُک چکا اورحکمران صدارتی آرڈینینسز کے ذریعے کاروبارِ حکومت سرانجام دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر آرڈیننس کے بَل پر ہی حکومت چلانی ہے تو پھرپارلیمنٹ کے ہر اجلاس پر لگ بھگ ایک کروڑ روپیہ روزانہ کا خرچہ کیوں؟۔ کیاعوام کی نسوں سے نچوڑا لہو اتنا ہی ارزاں کہ اُسے ماوٴں بہنوں کی گالیاں دینے والے ارکانِ اسمبلی پر صرف کر دیا جائے؟۔ کیا عوام اِن بزعمِ خویش رَہنماوٴں پر پیسہ اِس لیے صرف کرتے ہیں کہ یہ پارلیمنٹ کو میدانِ جنگ بنا دیں؟۔ بجٹ کے بعد پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا وہ نہ صرف قابلِ نفرت بلکہ لائقِ تعزیر بھی ہے۔ بجٹ کی کاپیاں ایک دوسرے پر اُچھالی جا رہی تھیں۔ حکومت اور اپوزیشن باہم گُتھم گُتھا اور گالیوں کا ایسا سونامی کے سر شرم سے جھُک جائیں۔ وجہ یہ کہ پارلیمانی روایات کے عین مطابق جونہی قائدِحزبِ اختلاف بجٹ پر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے کھڑے ہوئے، حکومتی بنچوں کی طرف سے نعرے بازی شروع ہو گئی ۔ دراصل ارکانِ اسمبلی کو ہدایت دی گئی تھی کہ میاں شہبازشریف کو کسی بھی صورت میں بجٹ پر اپنے خیالات کا اظہار نہ کر نے دیاجائے۔ دوسرے دِن پھر ایسا ہی ہوا اور تیسرے دن سپیکر قومی اسمبلی نے یہ کہتے ہوئے اجلاس ملتوی کر دیا کہ جب تک ارکانِ حکومت اور اپوزیشن باہم مل کر ضابطہٴ اخلاق طے نہیں کرتے، اجلاس معطل رہے گا۔ اگر میاں شہباز شریف کو خطاب کرنے دیا جاتا تو یہ جَگ ہنسائی کبھی نہ ہوتی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اپوزیشن دودھ کی دھلی ہوئی ہے لیکن یہاں قصور سارا حکومتی بنچوں کاہے جو یہ کہتے پائے گئے کہ چونکہ اپوزیشن وزیرِاعظم کو تقریر نہیں کرنے دیتی اِس لیے میاں شہبازشریف کو تقریر نہیں کرنے دی جائے گی۔ کیا یہی پارلیمانی روایات ہیں؟۔ کیا اِسی لیے عوام نے اپنے نمائندے منتخب کیے تھے؟۔ کیا اِسی لیے الیکشن پر اربوں روپے صرف کیے جاتے ہیں؟۔ کیا اِسی کو جمہور کی حکومت کہا جاتاہے؟۔ سُلگتا ہوا سوال یہ کہ اگر جمہوریت اِسی کا نام ہے تو پھر آمریت میں کیا خرابی ہے؟۔ تحقیق کہ جمہوری آمر فوجی آمر سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتاہے، یہی پاکستان کی تاریخ ہے،
حقِ حکمرانی حاصل کرنے سے پہلے کپتان کا دعویٰ تھا کہ اُس نے ایسے ”نگینے“ اکٹھے کیے ہیں جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ اب یہی نگینے کپتان کے دست وبازو ہیں لیکن ایک ہزار دن گزرنے کے باوجود ترقی کا پہیہ جام البتہ گالی گلوچ کی نئی لغت ضرور تیار ہو چکی۔ جو بوقتِ ضرورت کام آتی رہتی ہے۔ کپتان کے اِن نگینوں میں سے چندنگینے ہم نے منتخب کیے ہیں جن کی ”عظیم الشان“ کارکردگی سے قوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ پہلا نمبرفردوس عاشق اعوان کا ہے جو پرویزمشرف کی قدم بوسی کے بعد ق لیگ میں شامل ہوئی۔ جب وہاں جی نہ لگا تو یہ کہتے ہوئے پیپلزپارٹی میںآ ن وارد ہوئی کہ جو آصف زرداری کا ساتھ نہیں دے گا اُس کی دُنیا بھی برباد ہو گی اور آخرت بھی۔ شنید ہے کہ پیپلزپارٹی سے بیزار ہوکر محترمہ نے نوازلیگ کے دَر پر بھی حاضری دی لیکن وہاں دال نہیں گلی۔ خوب تر کی تلاش میں آجکل اُس کے ڈیرے تحریکِ انصاف میں ہیں۔ تحریکِ انصاف میں وہ یوں فِٹ بیٹھی ہیں جیسے انگوٹھی میں نگینہ کیونکہ وہ تحریکِ انصاف کی سیاسی روایات پر پورا اُترتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ
پہنچی وہیں پہ خاک ، جہاں کا خمیر تھا
موجودہ دَور میں پارلیمانی سیاست کی جگہ گالی گلوچ نے لے لی ہے۔ ہم پارلیمنٹ ہاوٴس کو ”مقدس ایوان“ کہتے ہیں لیکن اِس مقدس ایوان کے تقدس کی دھجیاں بکھیرنے والے وہی جنہوں نے ایوان کے تقدس کی قسم کھائی ہے۔ شوکت ترین کی بجٹ تقریر کے بعد تین دنوں تک اِس مقدس ایوان میں ماوٴں بہنوں کی گالیاں گونجتی رہیں۔ ایک دوسرے پر بجٹ کی وہ کاپیاں اچھالی جاتی رہیں جن پر اللہ رسولﷺ کا نام لکھا تھا۔ ایوان کی کارروائی شروع تو تلاوتِ قُرآنِ پاک اور نعتِ رسولِ مقبولﷺ سے ہوئی لیکن اُس کے بعد غلیظ ترین گالیوں کا طوفان اور ہلڑبازی ۔یہ پارلیمانی تاریخ کا حصہ ہے کہ ہمیشہ اپوزیشن ہی احتجاج کرتی ہے۔ ایسا دنیا کے ہر جمہوری ملک میں ہوتاہے لیکن تاریخِ پاکستان کی یہ پہلی پارلیمنٹ ہے جس میں باقاعدہ پلان کے تحت ہلڑبازی کا اہتمام اپوزیشن کی بجائے حکومت کرتی ہے۔ وزیرِاعظم صاحب (جو ریاستِ مدینہ کے داعی بھی ہیں) سے دست بستہ عرض ہے کہ پارلیمنٹ ہاوٴس کی عمارت پر لکھے گئے کلمہ طیبہ اور اندر رَبِ لم یزل کے نناوے ناموں کو مٹا دیا جائے کیونکہ کوئی بھی غیرت مند مسلمان کلمہ طیبہ کے عین نیچے نکالی گئی ماوٴں بہنوں کی گالیاں برداشت نہیں کر سکتا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.