کہاں گئی سونامی ؟

جمعرات 15 مئی 2014

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

حضرت علی کا فرمان ہے ”زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر تُو اسے کھُلا چھوڑ دے تو عین ممکن ہے کہ تجھے ہی پھاڑ کھائے“۔حقیقت مگر یہی ہے کہ وجودِ انسانی میں سب سے زیادہ نا فرمان زبان ہی ہے ۔محترمہ شیریں مزاری کہتی ہیں کہ عمران خاں بے باک ہیں ۔بے باکی بجا مگر
گرمی سہی کلام میں ، لیکن نہ اِس قدر
کی جس سے بات ، اُس نے شکایت ضرور کی
پہلے بھی خاں صاحب نے عدلیہ کے لیے ”شرمناک“ جیسالفظ استعمال کیا اور پھر توہینِ عدالت کے خوف سے اعلیٰ عدلیہ میں کھڑے ہو کر انتہائی بھولپن سے یہ کہہ دیا کہ اُنہیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ ”شرمناک“ گالی ہوتا ہے ۔

اب ڈی چوک اسلام آباد میں اُنہوں نے ایک دفعہ پھر ریٹرننگ آفیسرز (ججز) کے لیے یہی لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا ” ریٹرننگ آفیسرز شرم سے ڈوب مریں“۔

(جاری ہے)

اب پتہ نہیں چیف جسٹس آف پاکستان کب اَز خود نوٹس لیتے ہوئے خاں صاحب کو عدالت میں طلب کرتے ہیں ۔سچ کہا بقراط نے کہ ”قدرت نے دماغ کو دِل سے ارفع درجہ عطا کیا ہے اِس لیے جذبات کو ہر حالت میں عقل کے تابع رکھنا لازم ہے “۔

لیکن انتہائے نرگسیت کا شکار محترم عمران خاں تو اپنی انانیت کے خول سے باہر نکلنے کو تیار ہی نہیں ۔قوم نے اُن کی پذیرائی کی اور جی بھر کے کی کیونکہ کوہِ الم کے نیچے سسکتی قوم نے یہ جانا کہ اُسے وہ مسیحا مل گیا جس کی وہ اِک مدت سے متلاشی تھی لیکن خاں صاحب تو صرف ”کُرسی“ کے شیدائی نکلے ۔عریاں حقیقت تو یہی ہے کہ قومی ضیاء سے منور ہونے والے کپتان صاحب نے قومی درد کی مسیحائی کی بجائے صرف وزارتِ عظمیٰ کو ہی اپنا مطلوب و مقصود جانا کیونکہ وہ اپنے بیٹوں سے وعدہ کر چکے تھے کہ اب اُن سے ملاقات بطور وزیرِاعظم ہو گی۔

وزارتِ عظمیٰ کی خواہش پالنا ہر پاکستانی کا حق ہے اور خاں صاحب کا بھی لیکن اُنہوں نے تو ابتدا ہی میں یہ ثابت کر دیا کہ وہ رہبری و رہنمائی کے سرے سے اہل ہی نہیں ۔قوم نے اُنہیں خیبر پختونخوا کا حقِ حکمرانی بخشا اور وہ جو محض چھ ماہ میں صوبے کی تقدیر بدلنے کے دعویدار تھے ، خود اتنی اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے کہ اب ”نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں“ ۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ڈی چوک اسلام آباد میں عمومی توقع سے کہیں کم لوگوں نے شرکت کی ۔
تحریکِ انصاف کے سبھی مقررین نے ڈی چوک کے اِس مجمعے کو ”انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر “ کہاجبکہ غیر جانبدار تجزیہ نگار وں کے مطابق مجمع ستائیس سے اٹھائیس ہزار کے درمیان تھا البتہ تحریکِ انصاف بضد کہ مجمع ایک لاکھ ۔ اوّل تو ڈی چوک اسلام آباد میں تیس ہزار سے زیادہ کی گنجائش ہی نہیں اور دوسرے یہ کہ جلسہ گاہ میں صرف بارہ ہزار کرسیاں رکھی گئی تھیں جن پر ایک لاکھ لوگ نہیں بیٹھ سکتے ۔

لیکن اگر تحریکِ انصاف کی” ضد“ مان لیجائے توپھر بھی کروڑوں روپے صرف کرکے بیس کروڑ کے پاکستان سے ایک لاکھ افراد اکٹھے کرنا کونسی بڑی بات ہے ؟۔ اِس جلسے میں کم و بیش ستّر فیصد لوگ خیبر پختونخوا سے آئے جہاں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے۔ اب یہ خاں صاحب یا پرویز خٹک صاحب ہی بہتر جانتے ہونگے کہ اِس ستّر فیصد میں پٹواریوں اور تھانیداروں کی کاوشوں کا ثمر کتنے لوگ تھے؟۔

۔اگر خاں صاحب یہی جلسہ خیبر پختونخوا میں کر لیتے تو شاید اُن کا کچھ بھرم رہ جاتا لیکن خاں صاحب اور اُن کے حواری تو اسی پر مطمعن ہیں اور خوش بھی۔ شیخ رشید نے تو مجمعے کو دیکھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ اگر خاں صاحب اعلان کریں تو ”خُدا کی قسم“ دَس منٹ میں یہ اسمبلی ختم کر دی جائے گی۔آقا ﷺ کا فرمان ہے ”بُرے دوستوں سے بچو کیونکہ وہ تمہارا تعارف بن جاتے ہیں “۔

کاش کہ خاں صاحب نے اپنے گرد ایسے لوگوں کو اکٹھا نہ کیا ہوتا جنہیں ربّ ِ کردگار کی جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔
خاں صاحب نے فرمایا کہ حکومت نے لوگوں کو جلسہ گاہ میں آنے سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن ملٹری ڈکٹیٹر کی نرسری کے پلے ہوئے لوگ اُنہیں روک نہیں سکے ۔لیکن آخری ملٹری ڈکٹیٹر کی نرسری کے پلے ہوئے تو خود عمران خاں اور مولانا طاہر القادری ہیں جو آمر مشرف کے دَور میں ایک دوسرے سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری کا ثبوت دیتے رہتے تھے ۔

پرویز مشرف کے جلسوں اور ریفرنڈم میں خاں صاحب اور مولانا صاحب نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا ۔خاں صاحب کے پہلو میں بیٹھے شیخ رشید صاحب تو ہر ڈکٹیٹر کی نرسری کی بلبلِ ہزار داستان تھے اورچوہدری برادران بھی انہی نرسریوں میں پَل بڑھ کر جوان ہوئے ہیں اِس لیے دوسروں کو تو پاپی وہ کہے جس نے خود پاپ نہ کیا ہو ۔خاں صاحب کو یہ بھی شکوہ ہے کہ اُن کا مینڈیٹ چوری کر لیا گیا اور امپائر نیوٹرل نہیں تھے ۔

سوال مگر یہ ہے کہ کیا امپائر خاں صاحب کے مشورے اور مرضی سے منتخب نہیں کیے گئے؟۔خاں صاحب الیکشن کمشن ، نگران وزیرِ اعلیٰ نجم سیٹھی اور سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری پرجانبداری کا الزام دھرتے ہیں جبکہ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے خاں صاحب کو فخر الدین جی ابراہیم پر اندھا اعتماد تھا اور اُنہیں خاں صاحب کے مشورے سے ہی چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا ، چیف جسٹس صاحب کی بحالی کا وہ ہمیشہ کریڈٹ لیتے رہے اور الیکشن سے پہلے اُن کے نزدیک نجم سیٹھی سے بہتر کوئی نگران وزیرِ اعلیٰ ہو نہیں سکتا تھا لیکن دو تہائی اکثریت نہ ملنے پر خاں صاحب کے ہاں یہ سبھی ”بے ایمان“ قرار پائے ۔

الیکشن 2013ء سے پہلے احسن اقبال صاحب نے سچ کہا تھا کہ” عمران خاں صاحب الیکشن کمشن اور نگران حکومتیں اپنی مرضی کی منتخب کر لیں لیکن صرف اتنا لکھ کر دے دیں کہ اگر وہ الیکشن ہار گئے تو دھاندلی کا شور نہیں مچائیں گے “۔یوں لگتا ہے کہ جیسے احسن اقبال صاحب نے کپتان صاحب پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہو ۔
الیکشن 2013ء کے موقع پر یورپی یونین ، دولتِ مشترکہ ، نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل آفیئرز ، ایشین نیٹ ورک فار ری الیکشن اور جوائنٹ انٹر نیشنل الیکشن آبزرویشن مشن ، سبھی نے انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ قرار دیا لیکن چونکہ وزارتِ عظمیٰ خاں صاحب سے دور ہوتی چلی گئی اِس لیے یہ سبھی بھی بے ایمان ٹھہرے ۔

خاں صاحب سندھ میں دھاندلی کی بات کرتے ہیں ، نہ بلوچستان میں اور خیبر پختونخوا میں تو الیکشن ہوئے ہی فیئر اینڈ فری ہیں کیونکہ وہاں نتائج شگفتِ بہار بن کر ٹپکے اور خاں صاحب کو نہال کر گئے ، البتہ پنجاب۔۔۔ پنجاب میں تحریکِ انصاف نے پنجاب اسمبلی کی 286 اور قومی اسمبلی کی 138 نشستوں پر انتخاب لڑا اور اِن کُل 424 نشستوں میں سے 30 نشستوں پر تحریکِ انصاف کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوئیں اور دھاندلی کی شکایت صرف 15 اُمیدواروں نے کی ۔

تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ شکایت کنندگان پچھلی چار پیشیوں سے ٹربیونل میں جاتے ہیں اوردھاندلی کے ثبوت پیش نہ کر سکنے کی بنا پر ہر پیشی پر چالیس ہزار روپے جرمانہ کروا کر لوٹتے ہیں ۔اِس کے باوجود بھی خاں صاحب اگر کہتے ہیں تو ”پھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے“۔
نپولین نے کہا ”اگر تُم ہر بھونکنے والے کُتّے پر کھڑے ہو کر پتھر پھینکنا شروع کر دوگے تو کبھی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ پاوٴگے “۔

یہ بجا کہ نواز لیگ نے ابھی تک کچھ نہیں کیا لیکن اُن کا جذبہ ، جنوں اور کچھ کر گزرنے کی اُمنگ بہرحال جواں نظر آتی ہے ۔ہتھیلی پر سرسوں جما کے وہ دکھا نہیں سکتے تھے کہ اُنہیں سب کچھ ملا ہی تباہ حال تھا ۔اب بھی اگروہ چھوٹی موٹی رکاوٹوں اور ”شرارتوں “ پہ اَٹک رہے تو پھر کچھ بَن نہ پائے گا ۔اُنہیں چاہیے کہ وہ گزرتی ساعتوں کو امام بنا کر حصولِ منزل کا اہتمام کریں ۔میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ ”ترقی اور خوشحالی کا راستہ نہ روکا جائے “۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر عزم صمیم ہو اور لگن جواں تو دُنیا کی کوئی طاقت راہ کی رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :