انسانی نفس کی مختلف حالتیں‎‎

پیر 2 اگست 2021

Professor Shahid Ahmad Solehria

پروفیسر شاہد احمد سلہریا

انسان کی موجودہ زندگی جسے سے وہ کل سمجھ رہا ہے وہ دراصل اس کی زندگی کا ایک چھوٹا سا جزو ہے۔
انسانی زندگی کی اصل ابتدا تب ہوئی جب اللہ تعالی نے عالم ارواح میں انسانوں کی ارواح کوتخلیق کیا اور پھر معینہ مدت تک انسانوں کی ارواح اللہ تعالی کے پاس ایک متعین مقام و عرصہ تک مقیم رہیں۔
پھر اللہ عزوجل نے ان ارواح کو ماؤں کے ارحام میں منتقل کیا۔


یہ انسانی زندگی کا پہلا مرحلہ ہے پھر اس روح کا ماں کے رحم میں منتقل ہونا اور وہاں نو ماہ قیام کرنا انسانی زندگی کا دوسرا مرحلہ ہے پھر وہاں سے اس ظاہری دنیا میں پیدا ہونا اور ظاہر ہونا انسانی زندگی کے سفر کا تیسرا مرحلہ ہے اس کے بعد جب یہ جسم موت کی آغوش میں چلا جائے گا تو انسانی زندگی کا چوتھا مرحلہ شروع ہوگا۔

(جاری ہے)


قبر کی زندگی یا برزخ کی زندگی پر مشتمل  انسانی زندگی کا چوتھا مرحلہ ہے
(یہ انسانی زندگی کا ایک اور غیر مادی مرحلہ ہے)اس کے بعد انسان کو دوبارہ اٹھایا جائے گا اور اس کی زندگی کا پانچواں مرحلہ شروع ہوگا جو کئی ہزار سال پر مشتمل ہوگا اور پھر انسان حساب و کتاب کے مراحل سے گزر کر اپنی ابدی زندگی کی منزل تک پہنچے گا جو کہ اس کی زندگی کے سفر کا چھٹا اور آخری مرحلہ ہوگا۔


یہ انسانی حیات کے دورانیے اور مراحل کا ایک مختصر خلاصہ ہے جو موضوع کو بیان کرنے سے قبل بطور تمہید بیان کرنا موضوع کے فہم میں ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
انسان دراصل روح اور جسم کا مرکب ہے۔ یعنی انسانی جسم میں اللہ تعالی نے ایک غیر مادی (نہ نظر آنے والی)روح رکھی ہوئی ہے اور اس کے اوپر اس جسم کا لباس چڑھایا ہوا ہے لیکن اسکے ساتھ اللہ نے انسانی جسم میں ایک اور غیر مادی چیز بھی پیدا فرمائی جسے انسانی نفس کہا جاتا ہے انسانی نفس کسی خاص عضو یا  جسم کے کسی حصے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ انسان کے اندر ایک غیر مادی(وجود یا)جذبہ ہے۔

نفس انسانی دراصل برائی کا مظہر ہے یہ انسانی خیالات و جذبات کو برائی کی طرف آمادہ کرنے والا ایک جذبہ ،طاقت یا سہولت کار  ہے۔
روح عالم ارواح سے آئی ہے۔وہ اللہ کے قرب سے آئی ہے۔ اسے اللہ کا قرب یاد آتا ہے وہ محفلیں یاد آتی ہیں وہ واپس اپنی محفلوں میں جانا چاہتی ہے دوسرے لفظوں میں اللہ کا ذکر روح کو بڑا بھاتا ہے اور وہ اللہ کے ذکر سے خوش ہوتی ہے ،تقویت پکڑتی ہے جبکہ  انسانی نفس وہ جذبہ ہے جو انسان کو برائی کی طرف آمادہ کرتا ہے۔


نفس انسانی اگرچہ نہ نظر آنے ایک غیر مادی جذبہ ہے مگر اس کے مددگار انسانی جسم اور شیطان ہیں۔
 دنیا میں موجود تمام آسائشیں،تمام لغویات انسان کے نفس کو بڑی بھاتی ہیں ۔ انسانی نفس اپنی کیفیات اور حالتوں کو انسان کے ماحول اور اعمال کے زیر اثر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
1۔نفس امارہ
اسکی پہلی حالت کو قرآن مجید میں نفس امارہ کہا گیا ہے۔


نفس امارہ ایسا نفس ہے جو برائی کرنے سے خوش ہوتا ہے،طاقتور ہوتا ہے اور اطمینان حاصل کرتا ہے۔ برائی اس کی خوراک کہی جا سکتی ہے۔قرآن مجید کی سورہ یوسف کی آیت نمبر 12 میں اسکا تذکرہ ہے اور کہا گیا ہے
 (ان النفس لامارۃ بسوء) کہ بے شک نفس امارہ یقینا برائی کا بڑی شدت سے حکم دینے والا ہے۔
 2۔نفسں لوامہ
 اگر انسان اللہ کا ذکر کرے اچھی محافل اور اچھی صحبت میں بیٹھے،اچھی باتیں سنے تو اس کے نفس کی کیفیت میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے اور آخر یہی نفس امارہ ایک اور درجے میں داخل ہوتا ہے جسے "نفس لوامہ"  کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

نفس لوامہ ایک ایسی حالت کا نفس ہے جو برائی کرتا تو ہے مگر برائی کا ارتکاب اسکے اندر ندامت اور شرمندگی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔
ندامت اور شرمندگی کے باوجود وہ دوبارہ پھر وہی برائی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے جس پر وہ نادم ہوتا ہے نفس لوامہ کا حامل انسان کسی گناہ یا زیادتی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اس  کا نفس اسے فوری طور پر  ملامت کرتا ہے اسی وجہ سے اسے لوامہ کہا گیا ہے جسکا کا مطلب ہے سخت ملامت کرنے والا۔


"نفس لوامہ" انسان کے اندر برائی سے نفرت کا جذبہ پیدا کرتا ہے مگر اسے برائی سے روک نہیں پاتا۔
3۔نفسں ملہمہ
نفس لوامہ کے بعد نفس کی تیسری حالت،کیفیت یا درجے کو "نفس ملحمہ" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
 اگر انسان اپنی اچھی محافل اور اچھی صحبت کو جاری رکھے اور  اللہ کے قرب کے حصول کے لیے شدت سے محنت و مجاہدہ کرے تو اس کے نفس کو  "نفس ملھمہ" کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے  نفس ملھمہ انسانی دل میں نیکی کے خیالات ڈالتا ہے یعنی الہام کرتا ہے اسی لئے اسے ملھما کہتے ہیں جس طرح نفس لوامہ برائی سے نفرت پیدا کرتا ہے اسی طرح "نفس ملھمہ" انسان کے دل میں نیکی سے محبت پیدا کرتا ہے اور اس کے دل کو  تقویٰ و طہارت اور نیک اعمال کی طرف راغب کرتا ہے اور انسان برائی کرنے کے بعد سخت مایوسی اور غم کا شکار ہو جاتا ہے اور دوبارہ برائی کرنے سے بچ جاتا ہے یعنی نفس لوامہ انسان کو برائی سے روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا مگر نفس ملہمہ نہ صرف انسان کو برائی سے روک لیتا ہے   بلکہ انسان کو نیکی پر آمادہ کرتاہے۔


4۔نفسں مطمئنہ
چوتھا درجہ "نفس مطمئنہ" کو کہا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید کی سورہ فجر کی آیت نمبر 28 میں کہا گیا ہے
(یا ایتہا النفس المطمئنہ ارجعی الی ربک) "اے نفس مطمئنہ اپنے رب کیطرف لوٹ آ"  "نفس مطمئنہ" ایسا نفس ہے جو  اپنے رب کی رضا پہ راضی ہو جانے والا ہے اور یہ کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ بڑے خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جن کو اللہ نفس مطمئنہ سے نوازتے ہیں۔


5۔نفس راضیہ
 نفس مطمئنہ کا اگلا درجہ "نفس راضیہ"  ہے نفس راضیہ ایک ایسا نفس ہے جو اللہ سے راضی ہو جاتا ہے اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے نفس راضیہ کی کیفیت میں انسان  اللہ تعالی کے فیصلے پر،اس کے احکامات پر  خوش ہوتا ہے اس کے اندر خوش ہونے کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے چاہے ان معاملات میں اسے تکلیف ہی کیوں نہ ہو وہ اللہ کی رضا میں ہر حال میں راضی رہتا ہے اسی لئے اس نفس کو راضیہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔


6۔نفس مرضیہ
انسانی نفس کے درجات میں"نفس مرضیہ" چھٹادرجہ ہے یہ ایک ایسا درجہ ہے جب نفس انسانی ہر حال میں اللہ سے راضی رہنے لگتا ہے اس کے  مقام رضا میں کوئی لغزش نہیں آتی،کوئی تزلزل نہیں آتا۔
اسی استقامت اور مقام رضا کی بدولت اللہ تعالی اس سے راضی ہو جاتا ہے اسی لیے اس کو "مرضیہ" کہا جاتا ہے گویا نفس کا اللہ سے راضی ہونا "راضیہ" ہے اور اللہ کا بندے سے راضی ہونا "مرضیہ" ہے۔


یہ دونوں باہم لازم و ملزوم ہیں۔
قرآن مجید کی سورہ فتح میں جو سورۃ نمبر 48 ہے۔بعیت رضوان میں شامل صحابہ کرام کی شان بیان کی گئی ہے اور ارشاد ہے
"بے شک اللہ ان مومنوں سے راضی ہوگیا جب انہوں نے(اےنبی مکرم) آپ کے دست مبارک پر درخت کے نیچے بیعت کی"
 تو یہاں اللہ تعالی کے راضی ہونے کا ذکر ہے۔پھر قرآن مجید کی سورۃ فجر کی آیت نمبر 27 اور 28 میں ارشاد ہے
(یا ایتہا النفس المطمئنہ ارجعی الی ربک راضیہ المرضیہ)
"اے نفس مطمئنہ لوٹ آ اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہو، وہ تجھ سے راضی ہو"۔


7۔نفس کاملہ(صافیہ)
"نفس مرضیہ" کو انسانی نفس کی معراج کہا جاسکتا ہے لیکن بات تھوڑی سی آگے بڑھتی ہے اور انسانی نفس کو اللہ ایک اور کمال عطا فرماتے ہیں اور اسے نفس مرضیہ سے "نفس کاملہ" کا درجہ دیتے ہیں۔
"نفس کاملہ" سے مراد ایک ایسا نفس ہے  جو ہر حال میں مکمل اللہ کی رضا پر کامل راضی ہوتا ہے۔
سورہ فجر کی آیت نمبر 27 سے 30 تک ارشاد الٰہی ہے
"اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف راضیہ اور مرضیہ کی حالتوں میں لوٹ آ،
 پھر تو میرے(کامل)بندوں میں داخل ہو جا اور میری(اعلیٰ) جنت میں بسیرا کر لے"۔


اس تحریر میں مختصراً انسانی نفس کی کیفیات اور حالتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ ہمیں "نفس امارہ"  کے شر سے بچا کر "نفس مرضیہ" کے نور  تک اپنی رحمت کے سائے میں لے جائے۔
میری اس تحریر میں نادانستگی میں کوئی غلطی ہو گئی ہو اللہ سے معافی اور توبہ کا طلبگار ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :