"تیسری آنکھ"

جمعرات 23 ستمبر 2021

Professor Shahid Ahmad Solehria

پروفیسر شاہد احمد سلہریا

"انسان" اللہ ربّ العزت کا نادر شاہکار ہے جسکے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا کہ
"لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم"
انسان جسم اور روح کا مرکب ہے۔
جسم کا تعلق "فزکس"(طبیعیات) سے ہے اور روح کا تعلق"میٹا فزکس"(مابعدالطبیعیات)سے ہے۔
بالفاظِ دیگر جسم کو محسوس کیا جاسکتا ہے،دیکھا جاسکتا ہے اور روح نہ محسوس کی جا سکتی ہے اور اسے دیکھنا بھی ناممکن ہے۔


انسانی تخلیق میں فزکس اور میٹا فزکس یکجا کر دئیے گئے ہیں۔
انسان بیک وقت (جسمانی اور روحانی) دونوں عوالم کا رازداں کہلا سکتا ہے۔
یہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں تصوف(میٹا فزکس) کی اصطلاح میں "عالم ناسوت" کہلاتا ہے جبکہ اس سے اوپر "عالم لاہوت" ہے اور سب سے بالا "عالم ہاہوت" ہے۔

(جاری ہے)

"عالم لاہوت" تک رسائی ممکن ہے مگر "عالم ہاہوت" تک بہت ہی اعلیٰ ترین مراتب کے حامل مقربین کی رسائی ہی مذکور ہے۔


"عالم ناسوت" میں جسم کو روح پر برتری حاصل ہے کہ "عالم ناسوت" میں ہر چیز ظاہر اور مجسم ہے جبکہ "عالم لاہوت" میں روح جسم پر حاوی ہے کہ "عالم لا ہوت"(روح کی طرح) غیر مرئی اور انسان کی ظاہری نظر سے مخفی ایک الگ دنیا ہے۔
قبر سے اوپر "عالم ناسوت" یعنی "فزکس" ہے اور قبر کے اندر "عالم لاہوت" یعنی "میٹا فزکس" ہے۔
ایک دنیا پر دوسری دنیا کے اصول و ضوابط لاگو نہیں ہوتے۔

اسی لیے مردہ جسم ہمارے سامنے موجود ہونے کے باوجود روح کے "عالم لاہوت" میں جانے کی وجہ سے ہمارے جذبات اور احساسات کو محسوس کرنے سے عاری ہوتا ہے.
لیکن جونہی وہی جسم قبر میں اتارا جاتا ہے اور "عالم لاہوت" سے روح اس جسم میں واپس آتی ہے اور جسم(مرنے کے بعد) "عالم لاہوت" یا "میٹا فزیکل ورلڈ" میں قدم رکھتا ہے تو اس کے سننے اور دیکھنے کی صلاحیت(عالم لاہوت میں ہونے کیوجہ سے) لامحدود ہو جاتی ہے۔


اسی لیے احادیث میں مذکور ہے کہ مردہ قبر کے اندر (اسکو دفنا کر واپس جانے والوں کے) قدموں کی آہٹ تک سنتا ہے اور احادیث میں ہی مذکور ہے قبرستان میں داخل ہوتے ہوئے کہو
"السلام علیکم یا اہل القبور"
تو اگر قبروں کے اندر موجود اجسام سن نہیں سکتے تو بے جان کو سلام کرنے کا حکم کیوں دیا جاتا!
ہمارے ارد گرد لا تعداد غیر مرئی(نظر نہ آنے والی) مخلوق ہمہ وقت موجود ہوتی ہے اور اپنے اپنے امور سر انجام دینے  میں مصروف رہتی۔


جنات، شیاطین، ارواح،ملائکہ وغیرہ اسکی اہم امثال ہیں۔
ہم چونکہ فزیکل ورلڈ (عالم ناسوت) میں ہیں اور وہ مخلوق "میٹا فزیکل ورلڈ"(عالم لاہوت) میں ہے اس لیے ہم ان کو نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی محسوس کر سکتے ہیں اور نہ ہی با آسانی ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔اگر انسان اپنی ظاہری آنکھ سے اس لاہوتی یا غیر مرئی مخلوق کو دیکھ لے تو اسکا جسم اس نظارے کو شاید برداشت نہ کر سکے اور وہ شدید خوفزدہ ہو جائے۔


ان دونوں عوالم یا دنیاؤں کے درمیان نہایت باریک حجاب ہے۔۔۔
بقول اقبال۔۔۔
"کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا۔۔۔۔
نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہانی"
یعنی اقبال کہ رہے ہیں کہ مقامات اور درجات بلند ہوں تو "فزیکل ورلڈ" سے "میٹا فزیکل ورلڈ" میں جھانکنا بھی ممکن ہے۔اور "میٹا فزیکل ورلڈ" سے "فزیکل ورلڈ" میں رسائی تو ہر ایک کو اپنے مقام کی وجہ سے پہلے ہی  سے ممکن ہے
اللہ ہی جانتا ہے کہ "فزیکل ورلڈ"بڑی ہے یا "میٹا فزیکل ورلڈ"
تاہم ہم اس
"فزیکل ورلڈ" میں رہتے ہوئے اپنے جسم کے حواس خمسہ سمیت دوسری حسیات کے محتاج ہیں۔

اسی لیے ہم محدود نظر اور محدود سماعت رکھتے ہیں۔مگر یہ انسان کا فقط ناسوتی پہلو ہے۔انسان کا لاہوتی پہلو (روحانی پہلو)اسے لامحدود وسعت نظر و خیال عطا کرتا ہے۔
بقول اقبال
"عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے"
اقبال نے انسان کی روحانی پرواز اور مقامات کو جابجا اپنے کلام میں بیان کیا ہے
فرماتے ہیں
"سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ جس نےآدم کو سکھاتا ہے آداب خداوندی"
ایک اور جگہ فرماتے ہیں
"کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ"
(اقبال میٹا فزکس کیلئے کئی جگہ "عشق" کا استعارہ بھی استعمال کرتے ہیں
البتہ یہ ایک الگ موضوع اور بحث ہے جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے)
یہ دنیا،موت وحیات، جن و انس،لاشمار متنوع تخلیقات اور لامحدود وسعت کی حامل کائنات میرے عظیم رب کی عظیم الشان نشانیاں ہیں۔


انسان بیک وقت "فزکس" اور "میٹا فزکس" کے درمیان موجود ہے۔جب نیند میں ہوتا ہے تو روح کے زیر اثر "میٹا فزکس" کی دنیا کی سیر خواب کی حالت میں کرتا ہے۔
نیند سے بیداری پر خود کو دوبارہ "فزیکل ورلڈ" میں پاتا ہے۔
ہر روز "عالم لاہوت" سے ہو کر آتا ہے اور "عالم ناسوت" میں بیدار ہوتا ہے۔
اسقدر تنوع اسقدر تغیر و انتقال۔۔۔!!!
اللہ رب العزت کی قدرت و وسعت اقتدار کا مظہر ہے۔


تصوف جسے بعض لوگ غلط فہمی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہ سائنس کی ترقی اور آج کی سائبر ورلڈ کو گہرائی اور گیرائی سے دیکھیں تو اس سائبر ورلڈ اور میٹا فزکس میں انہیں تصوف کی الجھی گتھیاں سلجھتی نظر آئیں گی۔آج کی سائبر ورلڈ پر غور کریں تو یہ سب غیر مادی اور میٹا فزکس کی وسعت کا ایک انسانی اظہار ہے۔
ایک انسان چاہے بھی تو اس سائبر ورلڈ کی وسعت کا احاطہ نہیں کر سکتا تو اپنے عظیم ربّ کی بنائی ہوئی وسیع اور
لامحدود کائنات کی وسعت کا احاطہ اس کے بس کی بات کہاں!!!
یہ چند نکات اور حقائق تھے جن پر قارئین کی نگاہ ڈالنا مقصودِ تحریر تھا
اس تحریر میں کسی بھی دانستہ یا نادانستہ غلطی پر تہہ دل سے معافی کا خواستگار ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :