"میلادالنبی اور تصور بدعت"

پیر 18 اکتوبر 2021

Professor Shahid Ahmad Solehria

پروفیسر شاہد احمد سلہریا

ایک ایسا عمل جس کی اصل قرآن وسنت سے ثابت نہ ہو اور اسے دین سمجھ کر( یعنی دین میں بطور فرائص وسنت قرار دے کر) اس پر عمل کرنا دینی اصطلاح میں بدعت کہلاتا ہے۔
بدعت سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضد ہے ۔
متعدد احادیث میں بدعت اور بدعتی کی مذمت کی گئی ہے اور دین میں ہر نئے عمل کو بدعت قرار دیا ہے۔
مگر  کسی بھی عمل کو بغیر سوچے سمجھے بدعت کہہ دینا ایک غیر علمی رویہ ہے۔


پہلے تحقیق سے یہ ثابت کرنا لازمی ہے کہ بدعت کی تعریف کیا ہے؟ اور بدعت سے مراد کیا ہے؟ بدعت کی مذمت میں جو احادیث ہیں ان میں بدعتی کو جہنمی کہا گیاہے۔
بہت سی احادیث  کو سیاق و سباق سے ہٹ کے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہےجس کے نتیجے میں امت میں بہت سے فرقے بن گئے ہیں۔

(جاری ہے)


اشراق کی نماز باجماعت پڑھنا بھی بدعت  ہے مگر مسجد نبوی میں صحابہ اسے ادا کرتے، اکابر صحابہ دیکھتے اور کہتے کہ یہ بدعت ہے مگر اسے منع نہ فرماتے۔


 نماز تراویح کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں باجماعت شروع کیا گیا تمام صحابہ اسے بدعت سمجھتے تھے مگر ساتھ ہی یہ کہہ کر کہ کیا اچھی بدعت ہےتراویح باجماعت ہی پڑھتے۔
 اس سے فقہاء نے بدعت کی اقسام کا تعین کیا۔اور بدعت حسنہ اوربدعت سئیہ کی تقسیم کی۔ جس طرح شروع میں بہت سے علوم انتہائی سادہ ہوتے ہیں بعد میں زمانے کی ضروریات  ان کے اندر  نئی نئی جہتوں کو شامل کرنے کا موجب ہوتی ہیں۔


ہر حدیث کے مفہوم اور حکمت کی گہرائی میں جا کے فقہائے کرام اور مجتہدین عظام نے اس کے پسں منظر اور پیش منظر پر دقیق غوروفکر کے بعد اس حدیث کی تشریح اور اطلاق کیا ہے۔
اس سے اختلاف کرنا بہرحال ممکن  ہے مگر مجتہدین  کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی موجود  ہے کہ اگر مجتہد کی رائے درست ہوگی تو اسے دو ثواب ملیں گے اور اگر مجتہد کی رائے غلط ہو گی تو پھر اسے ایک ثواب ملے گا ۔


بدعت وہ موضوع ہے کہ ابھی تک شاید اتفاق ہی نہیں ہو پایا کہ بدعت کی ایک متفقہ تعریف ہے کیا؟
جو لوگ میلاد النبی منانے والے حضرات کو  بدعتی کہتے ہیں۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو پسند نہیں کرتے اور کہتے ہیں ان کے پیچھے نماز ہی نہیں ہوتی انہیں یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص حضورعلیہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر غور و فکر کرے اور مخلصانہ محنت اور عمل  کرے اور
  پھر  وہ بدعات میں کیسے  مشغول ہو سکتا ہے؟ آپ کی سنت مبارکہ کو چھوڑ دینا اور بدعت جیسے گناہ میں خود کو ملوث کر لینا گناہ عظیم ہے۔

سوچنا چاہیے کہ آخر اس کے پاس اس کی کوئی دلیل تو ہوگی۔
 ضروری نہیں کہ جسے آپ کی تحقیق بدعت قرار دے وہ دوسروں کی تحقیق کے مطابق بھی وہ عمل بدعت ہو۔
 بقول اقبال
 ممکن ہے کہ تو جس کو سمجھتا ہو بہاراں
 اوروں کی نگاہوں میں وہ موسم ہو خزاں کا
جسے آپ بدعت بدعت کی رٹ لگا کر  ناجائز قرار دے رہے ہیں دوسروں کی تحقیق کے مطابق وہ بدعت ہو ہی نہ۔

۔۔
علم جانبداری اور تعصب کی عینک اتار کر حاصل کیا جائے تو درست منزل کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔محبت اور عجز و انکساری کے جذبات دل میں پیدا کرتا ہے۔
 اور علم اگر جانبداری اور تعصب و بعض کی عینک لگا کر حاصل کیا جائے تو تکبر،ضد اور نخوت کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
 اس عمل کی جو شکل کل رائج تھی اور اس کی جو موجودہ شکل (ہئیت کذائیہ) آج رائج ہے  اس میں اگر فرق ہے تو یہ بدعت نہیں ہو سکتی۔

کیونکہ اس کی اصل یعنی بنیاد تو موجود ہے وقت بدلنے کے نتیجے میں اس کی شکل بدل گئی ہے جس طرح صحابہ کرام کے دور میں مساجد کچی بنائی جاتی تھیں بلکہ مساجد  کچی بنانے کا حکم تھا مگر جب لوگوں نے اپنے مکانات پکے اور خوبصورت بنانا شروع کر دیئے  تو لوگوں کے گھر عظیم الشان ہوتے، خوب صورت ہوتے، اور اللہ کا گھر کچا ہوتا تو پھر تمام علمائے کرام اور فقہاء  نے اس پر غور کیا اور کہا کہ اللہ کے گھر کو بھی پکا بنانا چاہیے کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے اگرچہ اس سے پہلے مسجد کو پکا بنانے سے منع کا حکم  تھا اس لیے وقت کی ضرورت کے تحت مساجد کو بھی پکا بنانا شروع کر دیا گیا۔

پہلے قرآن مجید ہڈیوں پر ،پتوں پر، تختیوں پر لکھا ہوتا تھا۔ کتابی شکل میں بعد میں لایا گیا۔ حدیث مختلف جگہوں پر لوگوں کے سینوں میں محفوظ تھی ضرورت نے مجبور کر دیا کہ اس کو کتابی شکل میں لایا جائے ۔ شورمچانے والے حضرات سے سوال ہے  کہ صحیح بخاری ،صحیح مسلم اور خاص طور پر وہ حضرات جو صحاح ستہ کا ورد کرتے نہیں تھکتے وہ  بھی پھر کتب احادیث کو بدعت مانیں۔

قرآن مجید کی پاروں میں تقسیم،اس پر اعراب اور جلد کا لگانا،مسجدوں پر مینار بنانا،جمعہ کی دو اذانیں اور اسی طرح کے کئی افعال اب  جائز قرار دئیے جاتے ہیں کیونکہ یہ وقت کا تقاضا ہیں۔
 یہ تو اب  دین کا حصہ بھی ہے۔میلاد شریف صحابہ کے دور میں  بھی منائی جاتی تھی
 حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ولادت کا روزہ رکھتے، دس محرم کو حضرت موسی علیہ السلام کی ولادت کا روزہ رکھتے قرآن مجید میں حضرت عیسی کی ولادت پر سلام کہا گیا صحابہ کرام اپنے اپنے طریقے سے مناتے تھے کوئی روزہ رکھ لیتا کوئی نفل پڑھتا،کوئی درودشریف پڑھتا۔

وقت اور طریقے بدلتے چلے گئے اور چیزوں کی شکلیں بدلتی چلی گئی اسی طرح میلادالنبی کے منانے کے انداز بھی تبدیل ہوتے گئے۔ یہ ایمان کو تقویت دینے والے ثقافتی اظہار ہیں ان کو دین کا حصہ نہیں کہا جاتا ہے یہ فرض نہیں ہے۔ میلاد النبی منانا یہ ایک مستحب عمل ہے جو نہ منانا چاہے نہ منائے مگر  جو منا رہے ہیں ان پر طعن نہ کرے۔ آپ دیکھیں اگر ایک بچہ لائٹنگ دیکھے،گلیوں اور بازاروں کی سجاوٹ اور سجانے والے نوجوانوں کی محنت ولگن دیکھے اور جشن کا سماں دیکھ کر پوچھے کہ یہ سب کیوں ہے تو جواب ملتا ہوگا کہ یہ ہمارے نبی کی ولادت کا دن ہے تو آپ اندازہ لگایئے بچے کے ذہن پر اس کا کس قدر خوبصورت اثر پڑتا ہے اور اسکے دل میں اپنے نبی کی عظمت اور محبت و عشق کا جذبہ پیدا ہوتا ہے آج کے سوشل میڈیا اور  مادیت کے دور میں جہاں میڈیا کی چکا چوند نے ایمان کی حلاوت کو ختم کر دیا ہے میلاد النبی کا یہ انداز بلاشبہ محبت اور عشق رسول کا ایک بہت بڑا ذریعہ ثابت ہو رہا ہے۔


 چودہ اگست بھی اسی طرح منایا جاتا ہے مگر وہاں اعتراضات نہیں کیے جاتے۔
جب ہم نے بہت سی ایسی چیزوں کو اپنا لیا ہے، ہم نے تصویر کو اپنا لیا ہے، ہم نے  ٹی وی چینل کو بھی اپنا لیا ہے ہم ہر چیز کو اپناتے چلے جاتے ہیں پھر  میلاد النبی کے جدید انداز ہر  منانے کے انداز پر ہی اعتراض کیوں؟ یہ عمل  نوجوان نسل کے دل میں محبت رسول پیدا کرنے کے لیے ناگزیر ہے، لازمی ہے ۔


پھر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ جو لوگ لائٹس لگاتے اور سجاوٹ کرتے ہیں  ان میں سے کئی نوجوان  نماز نہیں پڑھتے تو ہوسکتا ہے اس عمل کی برکت سے اللہ تعالیٰ ان کے دل بدل دے اپنے نبی کی ظاہری محبت ان کی باطنی محبت میں تبدیل ہو جائےاور وہ نماز پڑھنا شروع ہو جائیں۔لہذا چیزوں کو صحیح تناظر میں ،روشن دماغ سے دیکھنا چاہیے ،غیر جانبدار ہو کر مکمل کتب کا مطالعہ کرنے سے مکمل اور واضح رھنمائی ملتی نہ کہ سوشل میڈیا کی جھوٹی پوسٹس سے۔

۔۔۔
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منانا خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے( آپ کا پیر کا روزہ اسی لیے رکھتے تھے کہ یہ آپ کی ولادت کا دن تھا) ثابت ہے۔
ہیئت اصلیہ موجود ہو ہیئت کذائیہ بدعت نہیں کہلاتی۔کیونکہ اصل کا موجود ہونا اس عمل کو بدعت کی تعریف سے نکال لیتا ہے۔
البتہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے ہوئے غیر شرعی کام،موسیقی،ناچ گانا،اور اس طرح  شور  مچانا جس سے عوام اور بیماروں کو تکلیف ہو وہ قطعاً ناجائز اور میلاد کی حرمت وعظمت کے خلاف ہے۔


ہمارے معاشرے میں افراط و تفریط اسقدر زیادہ ہے کہ منانے والے ہر عمل کو ہی جائز قرار دیتے ہیں اور نہ ماننے والے ہر عمل کو بدعت قرار دیتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔
ظاہری خوشی کے اظہار میں بھی اعتدال کا خیال رکھا جائے۔کسی کو تکلیف میں مبتلا کرنا اور ناچ گانا کسی بھی طرح قابل دفاع اعمال نہیں ہیں اور سخت ناپسندیدہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دراصل یہی سب سے بہترین طریقہ ہے میلاد النبی منانے کا۔مگر ظاہری اظہار بھی ہماری ثقافتی ضرورت ہے ۔اس تحریر میں مبالغہ اور کسی بھی غلطی کیلئے اللہ کی بارگاہ میں صدق دل سے معافی کا خواستگار ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :