عزازیل‎

بدھ 26 مئی 2021

Professor Shahid Ahmad Solehria

پروفیسر شاہد احمد سلہریا

روایات کے مطابق اس نے صدیوں اللہ کی عبادت کی۔چپے چپے پر سجدہ کیا۔
اس علم اور عبادت نے اس کو ملائکہ کا معلم بننے کیلئے اہل قرار دلوا دیا۔وہ ذات میں ملائکہ سے کمتر تھا۔وہ ناری تھا اور ملائکہ نوری مگر علم نے سارے مراتب عبور کراکے اسے ملائکہ کا معلم بنا دیا یہ بہت بڑا مرتبہ تھا اور اس پر فخر بجا طور پر جائز تھا۔اس کے علم وزہد کے ہر سو چرچے تھے۔

وہ جانتا تھا کہ ایک دن اسے یہ درجہ عطا کرنے والا ،ایک "نائب" بھی بنانے والا ہے۔اپنے علم کا زعم اسے کہتا کہ وہ "نائب" وہی ہو گا۔کئی زمانے گزر گئے وہ مراتب میں بلند سے بلند تر ہوتا چلا گیا۔آخر وہ لمحہ جسکا وہ مدتوں سے منتظر تھا آ پہنچا۔مگر یہ کیا "نائب" تو اس سے درجے میں (تخلیقی مادے کے اعتبار سے) کم تھا۔

(جاری ہے)


وہ ناری ہو کر نوریوں کا معلم تھا مگر نائب تو گارے اور مٹی سے بنایا گیا تھا۔


بقول شاعر
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں
وہ دیکھتا رہا،منتظر رہا آرزو مند رہا،
مگر قرعہ کسی اور کے نام نکل آیا
صدیوں جس مقام کیلئے اس نے ان تھک محنت اور ریاضت کی وہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔
اس کا نام "عزازیل" تھا اور وہ ایک جن تھا۔
جن آگ سے بنی ایک مخلوق ہے۔
فرشتے نور سے بنی ایک مخلوق ہے مگر اللہ نے اپنی نیابت مٹی سے بنے "آدم" کو عطا کی۔

تخلیقی مادے کے اعتبار سے نور یا روشنی بلند مرتبہ چیز تھی اسکے بعد آگ کا درجہ تھا۔
مگر مٹی تو یکسر مختلف اور متضاد خصوصیات اور معیار کا حامل  مادہ تھا اور کسی بھی اعتبار سے اسکا مقابلہ نور اور نار سے نہیں کیا جا سکتا تھا۔
فرشتوں کو حکم ہوا کہ اس "نائب" کو سجدہ کرو۔فرشتوں نے بے چوں چرا اس حکم کی  تعمیل کی مگر عزازیل کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔

مایوسی اور نا امیدی میں گھرے عزازیل نے دلیل دی کے کمتر کو برتر کا سجدہ کیوں؟
اسکے علم نے ہی اسکو برتر بنایا تھا اور یہی علم اب اسے تکبر اور نافرمانی کا رستہ دکھا رہا تھا۔
بارگاہ الہی سے "دفع ہو جا"کا حکم صادر ہو گیا۔
اس کے علم نے اس کو ایک اور تدبیر سجھائی اور کہنے لگا کہ اپنی بارگاہ سے نکال تو دیا ہے مگر مجھے قیامت تک کی مہلت دے اور طاقت بھی دے کہ میری امیدوں کا خون کرنے والے تیرے اس 'نائب" کو قیامت تک گمراہ کر سکوں۔


حکم ہوا "جا تجھے مہلت بھی دی اور طاقت بھی دی۔مگر تو میرے بندوں کو گمراہ نہیں کر سکے گا"
یہی عزازیل ابلیس بن گیا۔شیطان بن گیا اور
نافرمانی وتکبر کے باعث راندہ درگاہ ٹھہرا
علامہ اقبال نے اپنی ایک نظم جبریل و ابلیس میں اس واقعے کی بخوبی عکاسی کی ہے۔
جبریل و ابلیس
جبرئیل۔۔۔
ہمدم دیرینہ کیسا ہے جہان رنگ و بوابلیس۔

۔۔
سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو جبرئیل۔۔۔
ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو
کیا نہیں ممکن،کہ تیرا چاک دامن ہو رفو ابلیس۔۔۔
آہ اے جبریل تو واقف نہیں اس راز سے
کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو
اب یہاں میری گزر ممکن نہیں ممکن نہیں
کس قدر خاموش ہے یہ عالم بے کاخ و کو جبرئیل۔۔۔
کھو دیئے انکار سے تو نے مقامات بلند
چشم یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو ابلیس۔

۔۔
ہے مری جرأت سے مشت خاک میں ذوق نمو
میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو
دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے میں کہ تو
۔۔۔۔۔۔۔
انسانی جسم ایک سلطنت کی مانند ہے اور دل اسکا دارالحکومت ہے۔جسکا دارالحکومت پر قبضہ ہوگا سلطنت بدن اسی کی ہوگی۔
روح اور نفس کو انسانی جسم میں رکھ کر  خدا کے نائب انسان کو زمین پر امتحان کیلئے بھیج دیا گیا۔

دنیا کی چکاچوند اور ابلیس نفس انسانی کے ہمنوا و مددگار ہیں اور اللہ کا ذکر و تقویٰ روح کا سہارا ہیں۔
عزازیل، ابلیس،طاغوت،شیطان کبھی انسان کا دوست اور ہمدرد نہیں ہو سکتا کیونکہ انسان نے اس کے خیال (باطل) میں اسکا مرتبہ و مقام چھینا ہے جسطرح بنی اسرائیل کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے کہ امت مسلمہ نے ان سے نبوت جیسی فضیلت چھین لی ہے اور ان سے پہلی امت مسلمہ کا مقام اور شان بھی اب امت مسلمہ کو منتقل ہوگئی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :