مختلف القابات و مراتب

منگل 11 جنوری 2022

Professor Shahid Ahmad Solehria

پروفیسر شاہد احمد سلہریا

مولوی
اسلامی علوم میں ہر علم کی طرح درجات اور مراتب ہیں۔اسلامی علم کے حامل کسی شخص کیلئے عام طور پر جو اصطلاح رائج ہے وہ مولوی ہے۔ہر وہ شخص جو علومِ دینیہ میں عام سطح سے ذرا بلند فہم کا حامل ہو معاشرے میں اس کے لیے "مولوی" کا لفظ مروج ہے۔مولوی سے متصل دوسرا لفظ "مولانا" ہے گرامر اور قواعد کی پیچیدگیوں سے احتراز کرتے ہوئے سادہ بول چال میں "مولوی" اور "مولانا" جیسے الفاظ مترادف معانی کے حامل کہے جاسکتے ہیں۔

تاہم مولانا روم نے "مولوی" اور "مولانا" کے مراتب میں فرق کیا ہے ان کی مثنوی کے مشہور شعر میں کہا گیا ہے کہ مولوی ہرگز مولانا نہیں بن سکتا جب تک وہ خاص روحانی مراتب و درجات کا حامل نہ ہو جائے
فرماتے ہیں
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریز نہ شد
مگر ہمارے ہاں یہ دونوں القابات مترادف معنوں میں ہی مستعمل اور مقبول ہیں۔

(جاری ہے)


مقرر
مقرر بھی عموماً مولوی اور مولانا کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔ویسے ہر تقریر کرنے والا مقرر کہلاتا ہے۔
مولانا طارق جمیل صاحب موجودہ دور کے اہم مقررین اور واعظین میں سے ایک ہیں ان کے بیانات نہایت معتدل اور متوازن ہوتے ہیں۔
 ڈاکٹر اسرار احمد (مرحوم)اور ڈاکٹر ذاکر نائک کے نام بھی مقررین میں سر فہرست ہیں۔

اصلاح احوال و اخلاق کے حوالے سے مذکورہ شخصیات کا ایک مقام ہے۔
یہ بات اہم اور قابل غور ہے کہ مقرر ،مولوی اور مولانا کوئی نئی فکر وفہم کے موجد یعنی ایجاد ودریافت کرنے والے نہیں ہوتے بلکہ پہلے سے موجود کتابوں میں علمی مواد کو بیان کرنے والے ہوتے ہیں۔وہ اپنی علمی استعداد کے مطابق پہلے سے موجود علمی مواد سے اپنی تقاریر کو مزین کرتے ہیں تاکہ سامعین یعنی سننے والوں پر اثر انداز ہو سکیں۔

وہ خود تحقیق کے میدان کے شہسوار نہیں ہوتے بلکہ پہلے سے موجود تحقیق کو بیان کرنے والے ہوتے ہیں۔
ان میں سے اکثر سادہ اور عام فہم زبان اور انداز کا استعمال کر کے عوام الناس میں مقبول ہونا ہی اپنی کامیابی اور معراج سمجھتے ہیں۔
چونکہ وہ خود محقق و مفکر نہیں ہوتے بلکہ محققین و مفکرین کے مقلد یعنی تقلید کرنے والے،پیروی کرنے والے ہوتے ہیں لہٰذا ان کی تقاریر میں یکسانیت،تکرار اور جمود بھی نظر آتا ہے۔

تاہم وہ اپنی بساط کے مطابق اپنے انداز بیان کو منفرد اور نادر بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کے سامعین یہ یکسانیت،تکرار اور جمود محسوس نہ کر سکیں۔
جملہ معترضہ۔۔۔۔
آج کل کے سوشل میڈیا کے دور نے چند مقررین کی چاندی کر دی ہے اور اب تو ہر شخص
(الا ماشاءاللہ) بغیر کسی قابلیت کے اپنے آپ کو بہترین عالم اور مقرر قرار دے کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی دوڑ میں شامل ہوتا نظر آتا ہے۔


کئی ایسے نام نہاد اور خود ساختہ "علمی کتابی" ہونے کے دعویدار بھی یوٹیوب پر نظر آئیں گے جن کا مقصد فقط اپنے سبسکرائبرز کی تعداد پر اترانا اور بڑے فخر سے اپنی سبسکرپشن کا بار بار ذکر کر کے اپنی اہمیت جتانا ہوتا ہے۔جن کا مقصد ہی دنیا،شہرت اور دولت ہو ان سے دینی علم کیسے مل سکتا ہے۔
ایسے نام نہاد خود ساختہ مقررین اور علماء ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جو انسانی نفس کو بہت بھاتے ہیں۔

سب کو غلط کہنا اور امت مسلمہ کے متفقہ امور کو متنازعہ بنانا ایسے نام نہاد خود ساختہ مقررین کا پسندیدہ موضوع ہوتا ہے۔ان کی سطحی علمی استعداد معاشرے میں فتنہ انگیزی کا باعث بنتی ہے وہ متشابہات القرآن کی طرف مائل کج سوچ کے حامل فتنہ پرست گھٹیا ترین افراد ہوتے ہیں جو سادہ اور کم فہم لوگوں کو گمراہ کرکے خوش ہوتے ہیں اور خود کو سب سے بڑا مصلح یعنی اصلاح کرنے والا کہتے ہیں مگر قرآن مجید کے مطابق وہی دراصل فساد پھیلانے والے ہوتے ہیں۔


ان کے پیروکاروں میں عموماً سطحی علمی سوچ کے ناپختہ نظریات کے حامل لوگ اور کم عمر نوجوان شامل دکھائی دیتے ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس فتنہ سے محفوظ رکھے آمین۔ان کے نام لینا نامناسب اور غیر دانشمندانہ عمل ہوگا کیونکہ اس تحریر کا مقصد اصلاح و تعلیم ہے تخریب و فساد نہیں ہے
مفسر
"مفسر" کی اصطلاح بھی علوم اسلامیہ میں کثرت سے استعمال کی جاتی ہے۔

مفسر سے مراد ایک ایسا عالم جو قرآن مجید کی آیات کی تفسیر کر سکے اور قرآن مجید کے الفاظ کے مختلف معانی واطلاقات  تک رسائی رکھتا ہو اسکے ساتھ ساتھ وہ پہلے سے موجود تفاسیر وتعبیرات سے بھی کما حقہ آگاہی کا حامل ہو۔ اسے تمام اقسام اور اصول تفسیر سے مکمل آگاہی ہو اور ساتھ ہی وہ جدید عصری تقاضوں کو بھی جانتا ہو تاکہ قرآن مجید جو تا قیامت ہر زمانے کے لیے آیا ہے اس کی آیات کا عصری اطلاق بھی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔


قران مجید فرقان حمید کے اولین و قدیم مفسرین میں ،عبداللہ بن مسعود،ابن کثیر،امام جلال الدین سیوطی،امام بغوی کی تفاسیر ، تفسیر ابنِ مسعود،تفسیر ابنِ کثیر، تفسیر جلالین،تفسیر بغوی وغیرہ کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے اور ماضی قریب کے چند اہم مفسرین میں مولانا مودودی(تفسیر تفہیم القرآن)
جسٹس پیر کرم شاہ الازہری(تفسیر ضیاء القرآن)
 مولانا نعیم الدین مراد آبادی(تفسیر خزائن العرفان)
مولانا محمد اکرم اعوان (تفسیر اسرار التنزیل)
ڈاکٹر طاہر القادری (عربی زبان میں کسی عجمی کی لکھی ہوئی پہلی تفسیر جس کا اردو ترجمہ ابھی آنا باقی ہے) کے نام لوحِ علم پر نمایاں الفاظ میں رقم ہیں۔


محقق
علم کی گہرائی میں غوطہ زن ہونا( قدیم و جدید میں تطبیق) اور موجود علمی مواد سے استفادہ کرتے ہوئے نئے تقاضوں کے مطابق علمی جہات کا مطالعہ کرنا ایک محقق کا کام ہے۔تحقیق کرنے والا محقق کہلاتا ہے۔تاہم محقق کا ایک دائرہ اور شعبہ ہوتا ہے۔اکثر  محققین اپنے اپنے دائروں کا اپنے اپنے علمی ذوق کے مطابق انتخاب کرتے اور پھر تحقیق کے میدان میں اپنی اپنی استعداد کے مطابق سفر کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔


کوئی فقہ کا شعبہ منتخب کرکے امام اعظم ابو حنیفہ،امام شافعی،امام مالک اور امام احمد بن حنبل بنتا ہے تو کوئی حدیث کا شعبہ منتخب کرکے امام بخاری،امام مسلم،امام نسائی،امام ابنِ ماجہ وغیرہا بنتا ہے۔
تحقیق کے میدان کی وسعت بے کراں ہے اور اس میدان کے شہسوار کی علمی وسعتوں کی بے کرانی بھی محقق کی تحقیق کی ترجمان ہوتی ہے
مفکر
علم کی دنیا کا ایک اور مقام و مرتبہ "مفکر" کا بھی ہے۔

کوئی صاحب علم جب علم کے سمندر سے گہر تلاش کرنے کیلئے اس سمندر میں غوطہ زن ہوتا ہے تو علم کی نئی نئی جہات سے متعارف ہوتا ہے اور تب وہ ایک فکر متعارف کرانے کے مقام پر فائز ہونے کے قابل ہوتا ہے یہ ایک خداداد صلاحیت ہے اور ہر عالم مفکر نہیں ہوتا۔
فکر ایک تخلیق ہوتی ہے اور ندرت اسکا خاصہ۔
جیسے ہر غوطہ زن کو سمندر سے موتی اور گہر میسر نہیں آتے اسی طرح ہر صاحب علم صاحب فکر نہیں ہوتا۔


بعض اہل علم تاعمر متقدمین صاحبان علم کی پیروی اور تقلید کے رستے کو اپنی معراج مان کر نئی فکر سے احتراز کرتے ہیں مبادا کوئی گستاخی اور جسارت کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں۔
(فی الحال موضوع فقط علوم اسلامیہ کے ماہرین سے متعلق ہے) ۔
شیخ اکبر محی الدین ابن عربی،
امام غزالی،الفارابی،بو علی سینا،
مولانا روم ،مجدد الف ثانی،
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
علامہ محمد اقبال مفکرین ملت میں ایک مقام و مرتبہ کے حاملین ہیں۔


مجدد
مجدد کا لفظی معنی تجدید کرنا کے ہیں.احادیث میں مرقوم ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی میں دین محمدی کی تجدید کیلئے مجددین کو مبعوث فرمائے گا۔مجدد کسی فکر کا موجد نہیں ہوتا تاہم وہ کسی ایک خاص فکر کا  مقلد بھی نہیں ہوتا بلکہ پہلے سے موجود اسلامی فکر پر  بداعمالیوں،بدعات،خرافات وحکایات کی گرد کو اپنے علمی،تحقیقی،فکری اور تجدیدی کام سے جلا بخشتا ہے۔

"مجدد "دین اسلام کی اساسی فکر پر تداول ایام کے باعث بدعات و خرافات کی گرد کو صاف کرتا ہے اور دین کی اصل کو بحال کرتا ہے۔وہ بیک وقت مفسر،محقق،اور مفکر ہوتا ہے۔اسکی پہچان اسکا علمی اور تحقیقی کام اور وژن ہوتا ہے۔وہ اپنے زمانے سے اگلے زمانے کے لیے بھی بنیاد بناتا ہے۔شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور امام احمد رضا خان اپنے اپنے دور کے مجددین میں شمار ہوتے ہیں۔


مجددین کو اکثر سطحی علمی استعداد کے حامل مولویوں اور جامد و مقلد سوچ سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مجدد اپنے دور کے علوم کو ایک نئی چمک دمک سے آرستہ و پیراستہ کرتاہے۔
اسکی علمی وجاہت وثقاہت کے سبھی قائل ہوتے ہیں اگرچہ وہ اس کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں
علوم قرآن،حدیث، فقہ اور جدید عصری علوم پر دسترس و مہارت بھی مجدد کے خصائص ہیں۔


تاہم یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ کوئی علانیہ و متفقہ منصب نہیں ہے کہ جس پر سب کا اتفاق ہونا لازم ٹھہرے۔
مندرجہ بالا تمام عنوانات مروج و مستعمل ہیں مگر ان کے بارے میں ہر صاحب علم کی رائے مختلف ہو سکتی ہے۔قران و حدیث میں ان کی کوئی مخصوص تعریف و پہچان مذکور نہیں ہے ترویج و اشاعت علم اور قبولیت ان درجات کی اہمیت کا تعین کرتی ہے۔
اس تحریر میں فقط ان القابات کا اجمالی تعارف و تعریف کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاکہ ایک عام مسلمان کو کچھ بنیادی تصور و پہچان کرائی جا سکے۔
اس تحریر کا مقصد تعمیری ہے تخریبی نہیں ہے۔
نادانستگی،کم علمی و کم فہمی کے باعث تحریر میں اگر کوئی خامی یا نقص رہ گیا ہو تو معذرت خواہ ہوں اور اللہ سے معافی کا خواستگار ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :