زلزلے کے بعد کی صورتحال اور ہماری ذمہ داریاں

ہفتہ 31 اکتوبر 2015

Qari Hanif Jalandhri

قاری حنیف جالندھری

وطن عزیز دس سال بعد ایک مرتبہ پھر زلزلے سے لرز اٹھا،اس وقت ہر طرف زلزلہ اور اس کے بعد کی صورتحال زیر بحث ہے اور اس بارے میں بہت کچھ کہا ،سنا اور لکھا جارہا ہے،زیز نظر تحریر میں زلزلے کے حوالے سے چند ضروری پہلووٴں پر توجہ دلانا مقصود ہے ۔ہمارے ہاں کچھ عرصے سے یہ چلن عام ہو گیا ہے کہ زلزلے ،سیلاب اور دیگر حادثات وآفات کے بعد یہ بحث شروع ہو جاتی ہے کہ اس کی محض سائنسی توجیہات کافی ہیں یا اس میں مذہب اور روحانیت کا بھی کوئی عمل دخل ہے ؟ یاد رہے کہ جس طرح دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے ہر واقعے کے کئی پہلو ہوتے ہیں ۔

اس کو سائنس کی نگاہ سے دیکھیں تو اس کی توجیہ الگ ہوتی ہے،مذہب کی نظر سے دیکھیں تو اس کے بارے میں ہدایات مختلف ہوتی ہیں اور سماجی ومعاشرتی اعتبار سے اس کا جائزہ لیا جائے تو کچھ اور نتائج نکلتے ہیں ۔

(جاری ہے)

مختلف زاویوں سے کسی بھی چیز کو جانچنے اور پرکھنے کا یہ عمل ایک دوسرے سے قطعاً متصادم نہیں ہوتا اسی طرح زلزلہ بھی ظاہر ہے کہ زیرِ زمین پلیٹوں کی حرکت کا نتیجہ ہے لیکن ان پلیٹو ں کو حرکت کا امرکس نے دیاا ور کیوں دیا ؟ایک ذہن وہ ہے جو ان پلیٹوں پر جا کر رک جاتا ہے جبکہ دوسرا ذہن اس سے آگے تک جاتا ہے اور یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان پلیٹوں میں حرکت کس کے اَمر اور قدرت سے ہوئی ؟ ظاہر ہے کہ ہر چیز اللہ رب العزت کے قبضہ قدرت اور اسی کے حکم کی محتاج ہے اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کا اہتمام کیا جائے اور اللہ کو راضی کرنے کی فکر کی جائے ۔

واضح سی بات ہے کہ وہ ذہن جو سورج اور چاند میں بھٹک جائے،کہکشاوٴں میں کھو جائے ،زیر زمین پلیٹو ں میں اٹک جائے لیکن ان کے خالق ومالک تک نہ پہنچ پائے وہ سطحی ذہن ہوتا ہے ۔ وہ صرف ظاہر ی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ جو محسوس کیا جاسکتا ہے یا جسے دیکھا جا سکتا ہے وہی حرف آخر ہے جبکہ گہرائی سے دیکھنے اور دوراندیشی سے سوچنے والا ذہن وہ ہوتا ہے جو ہر معاملے کی تہہ تک جائے اور یہ جانے کہ یہ سب حقیقت میں کیوں اور کیسے ہو گیا ؟ایسی دوراندیشی اور بصیرت انسان کو اپنے رب تک ضرور پہنچا تی ہے ۔


اسی طرح یہ بحث بھی کی جاتی ہے کہ زلزلہ عذاب ہے یا آزمائش ؟ پھر اس پر لمبی چوڑی بحثیں کی جاتی ہیں کہ امریکا اور یورپ میں زلزلے کیوں نہیں آتے اور فلاں شہر میں بسنے والوں پر عذاب کیوں نہیں اترتے ؟اس بارے میں یہ واضح رہے کہ دنیا دارالجزاء نہیں بلکہ دارالامتحان ہے۔ اسے پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت قرار دیا ہے اس لیے حقیقی جزاء وسزا کا فیصلہ تو آخرت میں ہوناہے۔

دنیا میں جو بھی واقعات رونماہوتے ہیں ان میں دونوں امکانات ہوتے ہیں وہ اللہ تعالی ٰ کا عذاب بھی ہوسکتے ہیں اور اللہ رب العزت کی طرف سے آزمائش بھی …اب سوال یہ پیدا ہو گا کہ یہ فیصلہ کیسے کیا جائے کہ کون ساحادثہ عذاب ہے اور کون ساآزمائش ؟ اس بارے میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی  نے پتے کی بات ارشاد فرمائی ۔فرمایا ”انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں جو سانحات ،حادثات ،مصائب وآلام آئیں ان کے بعد اگر انسان کے اللہ کی طرف رجوع میں اضافہ ہو جائے اور وہ اپنی اصلاح کر لے تو سمجھ لیا جائے کہ وہ اللہ کی طرف سے تنبیہ اور آزمائش تھی اور اگر ان حادثات کے نتیجے میں انسان کی سرکشی میں اضافہ ہو جائے ،وہ نافرمانی اور بے راہ روی کی روش اپنا لے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ جس حادثے کا شکار ہوا وہ اس کے لیے آزمائش نہیں بلکہ عذاب تھا “حضرت تھانوی  کا یہ ارشاد ایک ایسی کسوٹی ہے جس پر جانچ پرکھ کر اس بات کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ عذاب کیا ہے اور آزمائش کیا ؟کسی ادیب نے کیا خوب لکھا ہے کہ” دکھ اور حادثہ ایک ایسا دھکا ہوتا ہے جو گاہے انسان کو رب ذوالجلال کے قدموں میں لاڈالتا ہے اور کبھی انسان کو گمراہی اور شکوک وشبہات کی گہری کھائیوں میں گرا دیتا ہے “۔

اس لیے زلزلے اور سیلاب کے بعد اسے محض مادیت کی نظر سے دیکھنا اور اس کی تمام دینی توجیہات کو نظر انداز کردیناناانصافی ہے وہیں یہ طرز عمل بھی سراسر غلط ہے کہ یہ کہا جانے لگے کہ فلاں علاقے میں گناہ زیادہ تھے اس لیے ان کو سیلاب نے اپنی لپیٹ میں لے لیا یا وہ لوگ زلزلے کی نظر ہو گئے۔کسی انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کے گناہ یا ثواب کا فیصلہ کرتا پھرے یا اللہ رب العزت کی طرف سے آنے والے حالات کو عذاب یا آزمائش کے خانوں میں بانٹتا رہے …یہ فیصلے میدان حشر میں ہونے ہیں اور وہاں حتمی طو رپر معلوم ہوگا کہ کس کو اللہ نے زلزلے کے ذریعے شہادت کے رتبے پر فائز فرمایا اور کس پر سیلاب اللہ کا عذاب بن کر ٹوٹا تھا ؟اس لیے اس بحث کو اللہ رب العز ت پر چھوڑدینا چاہیے تاہم ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں ،ہر ایک معاملے کو قرآن وسنت کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کریں ، اپنی اصلاح کی فکر کریں اور اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا اہتمام کریں ۔


جب ہم احادیثِ مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو بہت واضح طور پر یہ بات ملتی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت پہلے خبردار فرما دیا تھا کہ کس قسم کے حالات میں زلزلے اور سرخ آندھیاں آنے کا خطر ہ ہے ۔یہاں سنن ترمذی کی ایک حدیث نقل کی جارہی ہے جس سے زلزلہ کے اسباب کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے، حضرت ابو ہریرہ راوی ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (جب مندرجہ ذیل باتیں دنیا میں پائی جانے لگیں) تو اس زمانہ میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو، زمین میں دھنس جانے ، صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور ان عذابوں کے ساتھ ساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے در پے اس طرح ظاہر ہوں گی، جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں (وہ باتیں یہ ہیں )۱- جب مالِ غنیمت کو گھر کی دولت سمجھا جانے لگے۔

۲- امانت دبالی جائے۔۳-زکوٰة کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے۔۴- علم دین دنیا کے لیے حاصل کیا جائے۔۵- انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرے اور ماں کی نافرمانی کرے۔۶- دوست کو قریب کرے اور اپنے باپ کو دور کرے۔ ۷- مسجدوں میں شور وغل ہونے لگے۔۸- قوم کی قیادت، فاسق وفاجر کرنے لگیں۔۹-انسان کے شر سے بچنے کے لیے اس کی عزت کی جائے۔۱۰- گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہوجائے۔

۱۱- شباب وشراب کی مستیاں لوٹی جانے لگیں۔۲۱- بعد میں پیدا ہونے والے،امت کے پچھلے لوگوں پر لعن طعن کرنے لگیں۔ (سنن الترمذی حدیث نمبر: ۱۱۲)
ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ان میں سے کون سا سبب آج کے دور میں موجود نہیں ۔یاد رہے کہ صرف یہی اسبا ب نہیں اس کے علاوہ بھی بے شمار اسباب ہیں جن کا ذکراحادیث مبارکہ میں ملتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس موقع پر انفرادی اور اجتماعی طور پر اللہ رب العزت کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے ، ہمیں اس وقت اجتماعی توبہ واستغفارکا اہتمام کرنا چاہیے ۔

اپنا، اپنے گرد وپیش اور معاشر ے کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم اپنی ذات ،اپنے خاندان ،اپنے ادارے اور اپنے اختیارات و مسوٴولیت کی حدود میں کس حد تک اصلاح احوال کر سکتے ہیں اور مذکورہ بالاا سبا ب میں سے کن کن اسباب کا خاتمہ کرسکتے ہیں ہمیں اس کی فکر اور اہتمام کرنا چاہیے ۔اگر ہم یہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یقینا دنیا میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے ۔


زلزلے کے حوالے سے ایک انتہائی اہم امر یہ ہے کہ اس حادثے میں جان بحق ہونے والوں کی بخشش ومغفرت اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعائیں کی جائیں،زخمیوں کی تیمارداری ، متاثرین کی بحالی اور تعاون میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے اور ہمیشہ کی طرح اس مرحلے پر بھی انصارِ مدینہ کی یادیں تازہ کی جائیں ۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے قائدین نے زلزلے کے فوراً بعد ملک بھر کی مساجد کے ائمہ وخطباء اور دینی مدارس کے متہممین ومدرسین کے نام ہدایات جاری کی ہیں کہ ہر مسجد ومدرسہ میں زلزلے کے شہداء کے درجات کی بلندی ،بیماروں کی صحت یابی اور ان کے لواحقین وپسماندگان کے صبر جمیل کی دعائیں کی جائیں اور ہر سطح پر جس قدر ممکن ہو سکے دکھ کی اس گھڑی میں متاثرینِ زلزلہ کی جانی و مالی ہر طرح سے مدد کی جائے ۔

الحمد للہ ملک بھر میں دعاوٴں اور خدمت کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس کالم کے ذریعے وطن عزیز کے ہر ہر فرد سے یہ اپیل کروں گا کہ یہ ایک قومی اور ملی سانحہ ہے ۔دکھ کی اس گھڑی میں ہم نے ایک دوسرے کا دست وبازو بننا ہے ،ایک دوسرے کو سہارا اور حوصلہ دینا ہے خاص طور پر حکمرانوں اور اربابِ اختیار سے ہماری یہ درخواست ہو گی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا خاص اہتمام کریں اور منصوبہ بندی اور شفافیت کے ساتھ متاثرین کی امداد وبحالی کو یقینی بنائیں ۔

2005ء کا زلزلہ ہمارے سامنے ہے اس وقت قوم نے جس ایثار سے کام لیا وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ،پوری دنیا کی طرف سے جو تعاون کیا گیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے لیکن ہمارے ہاں بدنظمی ،منصوبہ بندی کے فقدان ،اقرباء پروری ،دیانت وامانت کے معاملے میں بدترین کوتاہیوں جیسے جو دیرینہ مسائل ہیں ان کی وجہ سے اس ایثار اور تعاون سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا اب کی بار ضرورت اس امر کی ہے اس وقت کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو دوہرایا نہ جائے اور پوری سنجیدگی اور دیانتداری سے متاثرین کی معاونت اور بحالی کا اہتمام کیا جائے ۔اللہ رب العزت ہماری خصوصی مدد ونصرت فرمائیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :