
سودکے خاتمے کی جدوجہد اور حالیہ بے حسی
منگل 20 اکتوبر 2015

قاری حنیف جالندھری
آپ صرف سود کی مثال لے لیجیے ۔پاکستان کے 1973ء کے آئین میں سود کے خاتمے کی ضمانت دی گئی ۔آئین کے آرٹیکل 38میں حکومتِ وقت کو اس بات کا پابند بنایا گیا کہ جس قدر جلدی ممکن ہو ملک سے سود کا خاتمہ کیا جائے ۔
(جاری ہے)
15جون 1988ء میں جنرل ضیاء الحق نے شریعت آرڈیننس جاری کیا تو ایک مرتبہ پھر امید کی کرن جاگی کہ شاید اب نفاذِ شریعت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوپائے گا۔شریعت آرڈیننس کے اجراء کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر احسان رشید کی سربراہی میں اسلامی معیشت کمیشن تشکیل دیا گیا تو پاکستانی معیشت کی تطہیر کی امید یقین میں بدلتی محسوس ہوئی لیکن صرف دو ماہ بعد جنر ل ضیاء الحق طیارہ حادثے میں جاں بحق ہو گئے تو ان کے بعد برسرا قتدار آنے والی بے نظیر بھٹو حکومت نے نہ صرف یہ کہ وہ کمیشن تحلیل کر دیا بلکہ اس آرڈیننس کو بھی اسمبلیوں میں پیش نہیں ہونے دیا ۔
پاکستانی معیشت کو سود سے پاک کرنے کی کوششوں میں کمیٹیاں کے بننے اور ٹوٹنے کی بھی ایک لمبی داستان ہے ۔1969ء میں اسلامی مشاورتی کمیشن کی طرف سے کمیٹی کے قیام کی سفارش سے لے کر 1991ء میں پروفیسر خورشید کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی ،مولانا عبدالستار خان نیازی کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی ،1997ء میں راجہ ظفر الحق کی قیادت میں بننے والی کمیٹی تک ہر دور میں سود کے کمبل کو نہ چھوڑنے کے لیے کمیٹیوں کا سہارا لیا جاتا رہا ،ان کمیٹیوں کی سفارشات کو ہمیشہ بھاری بھرکم فائلوں تلے دبایا جاتا رہا ۔اس سے زیادہ افسوسناک صورتحال عدالتی اور قانونی محاذ پر پیش آئی ۔عدالتی محاذ کی داستان کا آغاز 1981ء سے ہوتا ہے ۔1981ء میں وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی لیکن سرمایہ دارانہ ذہنیت نے اس کی مُشکیں کَسنے کے لیے ابتداءً مالی معاملات کو اس کے دائرہ اختیار میں آنے ہی نہیں دیا جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کے کنویں کو سود کے کتے سے پاک نہیں کیا جا سکا ۔پھر اسی وفاقی شرعی عدالت کو ہی سود سے نجات کا ذریعہ قراردیتے ہوئے کوششیں جاری رہیں اور بالآخر دس سال بعد یعنی14نومبر 1991ء کو وفاقی شرعی عدالت نے سود کیس میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو چھے ماہ کا وقت دیا کہ وہ چھے ماہ کے اندر اندر ملکی معیشت کو سود سے پاک کرے ۔
سوء ِ اتفاق سے اس دور میں بھی موجودہ وزیر اعظم وزارت عظمی ٰ کے منصب پر جلوہ افروز تھے ۔میاں نواز شریف نے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی اور پھر 1991ء سے لے کر 1999ء تک مختلف حیلے بہانوں سے اس معاملے کو لٹکایا جاتا رہا بالآخر 1999ء میں سپریم کو رٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے وہ اپیل خارج کرکے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا اور حکومت کو 30جون 2001ء تک ملکی معیشت کو سود سے پاک کرنے کے لیے ڈیڈ لائن دی ۔
2001ء میں پرویز مشرف حکومت کی ایماء پر یوبی ایل نے ایک اور اپیل دائر کی جس کی سماعت کے دوران حکومت کو ایک سال کا مزید وقت مل گیا ۔اس عرصے میں شریعت اپیلٹ بینچ کے ججوں کو تبدیل کر کے ایسے ابن الوقت اور نام نہاد روشن خیال لوگوں کو سامنے لایا گیا جنہوں نے حکومت کو سودی سلسلہ جاری رکھنے کا عندیہ دیا اور پھر سود کے خاتمے کی کوششیں کسی سرد خانے میں پڑی رہیں ۔
حال ہی میں سپریم کورٹ میں سود کے حوالے سے دائر کردہ ایک درخواست کو خار ج کرتے ہوئے جسٹس سرمد جلال عثمانی نے جو ریمارکس دئیے اس نے اس پاکستانی معیشت اور سود کے معاملے کو پھر سے موضوع بحث بنا دیا ۔جسٹس سرمد جلال عثمانی کے ریمارکس پرپوری قوم شدید صدمے سے دوچار ہوئی ۔جسٹس سرمد عثمانی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے باہر مدرسہ کھول کر لوگوں کو سود کی حرمت کا درس نہیں دیا جاسکتا جوسود لیتے ہیں ان سے اللہ پوچھے گا ۔جسٹس سرمد کے ان ریمارکس کے بارے میں تو صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ صرف سود لینے والوں سے ہی نہیں بلکہ سودی نظام کا تحفظ کرنے والوں سے بھی اللہ پوچھے گا انشااللہ ۔ تاہم ان کے ان ریمارکس نے سود کے معاملے میں بیوروکریسی ،عدلیہ اور دیگر حکومتی کَل پروزوں کا طرز عمل اور سوچ بے نقاب کر دی ہے ۔اگر اسی منطق کو تسلیم کر لیا جائے تو کل کلاں یہ کہا جائے گا کہ ملک لوٹنے والوں سے بھی اللہ پوچھے گا ،ڈاکے ڈالنے والوں سے بھی اللہ پوچھے گا ،دہشت گردی کرنے والوں سے بھی اللہ پوچھے گا ہم سپریم کورٹ کے باہر مدرسہ کھول کران جرائم کی برائیاں لوگوں کے سامنے واضح نہیں کر سکتے ۔
سپریم کورٹ میں پیش آنے والے اس تازہ واقعے نے بہت سے پرانے زخم ہرے کر دئیے ہیں اور دلی صدمہ ہوا کہ وطن عزیز میں سود جیسے انتہائی نازک معاملے کو کس طرح بازیچہ اطفا ل بنایا گیا اور بنتی ٹوٹتی کمیٹیوں سے لے کر ،اعصاب شکن عدالتی جدوجہد تک ایک خدائی حکم کے ساتھ محض اپنے مفادا ت کے لیے کس بھونڈے انداز سے کھلواڑ کیا گیا ۔ بیوروکریسی ،عدلیہ ،سرمایہ داروں اور بین الاقوامی ساہوکاروں کے مفادات نگہبانوں کے طرز عمل سے زیادہ مذہبی جماعتوں اور دینی شخصیات کا طرزِ عمل باعثِ حیرت ہے۔ہمارے ہاں کئی معاملات کو قومی ایشو بنایا جاتا ہے ،صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے ،جلوس نکلتے ہیں ،احتجاج ریکارڈ کروائے جاتے ہیں لیکن اس اتنے بڑے معاملے میں ہر طرف ہُو کا عالم ہے،عجیب سی بے حسی ہے۔یہ صورتحال ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
قاری حنیف جالندھری کے کالمز
-
مدارسِ دینیہ کی اسناد کی قانونی حیثیت
پیر 23 اپریل 2018
-
تلاوت ِقرآن کریم اور یوم دعا
جمعرات 10 نومبر 2016
-
سندھ حکومت کا مدار س رجسٹریشن کا ترمیمی بل …خدشات،اثرات
پیر 26 ستمبر 2016
-
استحکام مدارس وپاکستان کانفرنس …ایک تاریخ ساز اجتماع
اتوار 28 فروری 2016
-
زلزلے کے بعد کی صورتحال اور ہماری ذمہ داریاں
ہفتہ 31 اکتوبر 2015
-
سودکے خاتمے کی جدوجہد اور حالیہ بے حسی
منگل 20 اکتوبر 2015
-
قربانی کی کھالیں
بدھ 30 ستمبر 2015
-
وہ ایک سجد ہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
جمعہ 6 مارچ 2015
قاری حنیف جالندھری کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.