
کیا زمانے ميں پنپنے کی یہ ہی باتيں ہيں؟
جمعہ 15 جنوری 2021

رحیق احمد عباسی
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دین اسلام اور مسلم امہ کا جتنا نقصان اندرونی معاملات سے ہوا اتنا بیرونی سازشوں اور حملوں سے نہیں ہوا۔ اگرچہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن ان میں سر فہرست باہم انتشار اور عدم اتفاق ہے۔ علاقائی تقسیم ، نسلی تفاخر اور لسانی تعصب بھی وجود امت کو پارہ پارہ کر رہے ہیں لیکن اس حوالے سے بڑا چیلنج مذہبی تقسیم اور فرقہ واریت کا ہے۔ آج کے دور میں ہر مسلک اپنے آپ کو حق پر اور باقی سب کو باطل گردانتا ہے۔ اگرچہ ہر کوئی کسی نہ کسی طور خدمت دین کا ہی دعویدار ہے لیکن وہ اپنی خدمت دین کو باقی سب کی خدمت دین سے اعلی و ارفع سمجھتا ہے ۔ ہر ایک کے نزدیک اس کا مسلک و فقہی مذہب اصل حق و سچ ہے باقی مسالک راہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں ۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں اختلاف کو رحمت قرار دیا ۔ کیونکہ مثبت اختلاف علمی تحقیق کا راستہ کھولتا ہے علمی تحقیق تنوع کو جنم دیتی ہے اور تنوع انسان کی ہر لمحہ بدلتی ذندگی کی ضرورت ہے ۔ اسی تنوع کی نمو کے لئے مختلف فقہی مذاہب وجود آئے ۔ انسان کے طبیعت اور مزاج میں موجود تنوع کے پیش نظر ہی مختلف روحانی طرق تشکیل پذیر ہوئے ۔ اللہ کی طرف سے اتاری گئی آخری کتاب اور نبی اکرم صلی اللہ و علیہ و سلم کی سنت و سیرت کی مختلف دور میں مخلتف ائمہ امت نے اپنے زمانے کی ضرورتوں کے مطابق تعبیر و تشریح کی جن سے یہ مسالک و مشارب وجود میں لیکن ان سب کی مثال ان نہروں اور ندیوں کی مانند ہی تھی جو ایک ہی دریا کا پانی مخلتف کھیتوں تک پہنچاتے ہیں ۔ ایسے فرد کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے جو اپنے کھیت سے ملنے والی نہر کو دریا پر ترجیح دیتا ہو اسی طرح اپنے مسلک فقہی مذہب یا روحانی طریقہ کو دین پر ترجیح دینا بھی ایک بد بختی ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے انسان کی ، بھلائی کے لئے ہی سہی، وضح کردہ شے کو اللہ کی وضح کی ہوئی شے پر ترجیح دینا ۔ نعوذباللہ من ذلک۔
ہمارے مسالک انسانوں کے وضح کر دہ ہیں، ہماری جماعتیں انسانوں کی بنائی ہوئی ہیں، ہمارے مدارس انسانوں کے قائم کئے ہوئے ہیں، ہماری خانقاہین انسانوں کی آباد کی ہوئی ہیں، ہماری تحریکیں انسانوں کی چلائی ہوئی ہیں، یہ سب کے سب خدمت دین کے راستے اور طریقے تو ہو سکتے ہیں لیکن عین دین نہیں یہ سب دین کے تابع رہنے چاھئے ان کو دین پر ترجیح نہیں دینا چاھئے۔
اب اس بات پر ہو کوئی یہ ہی جواب دے گا کہ ہم اپنے مسلک طریقے جماعت یا مشرب کو دین پر ترجیح نہیں دیتے ۔ تو عرض ہے کہ یہ کہنے کی بات نہیں سوچ و فکر کی بات ہے ۔خوبصورت الفاظ سے اپنی تقریر و تحریر کو مزین کرنا آسان ہے لیکن اپنے عمل و کردار اور مزاج و طبیعت کو اپنے الفاظ کے تابع کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ اگر ہم اپنی خدمت دین کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں اور دوسروں کی خدمت دین سے کیڑے نکالتے ہیں ، ہم اپنے مسلک کو حق پر اور باقی سب کو گمراہ سمجھتے ہیں، ہم اپنے طریقہ کو کامل و اکمل اور باقی سب طرق کو ناقص و کمتر گردانتے ہیں، ہمارے نزدیک ہم جو کررہے ہیں وہ تو عین دین ہے جبکہ باقی سب فروعی اور غیر اہم کام ہیں ۔ ہم ہی اللہ کے چنیدہ لوگ ہیں اور باقی سب سطحی مسلمان ، جو ہم میں شامل ہو گیا وہ عرش الہی کے سائے میں آ گیا اور جو ہم سے نہ جڑا وہ روندہ درگاہ، جو ہماری تعریف کرے وہ قابل تعریف اور جو ہم پر تنقید کرے وہ قابل نفرت، جو ہمارا مکمل تابع رہے وہ اللہ و رسول کا تابع اور جو ہم پر سوال اٹھائے وہ مردود اور شیطان کا پیرو کار ۔۔۔ تو پھر یقین کریں کہ ہمیں اپنا جائزہ لینا چاھیئے کہ کہیں ہم اپنے مسلک و مشرب اور گروہ و جماعت کو دین اور امت پر ترجیح دینے کے ظلم کا ارتکاب تو نہیں کر رہے؟
جب تک ہمارے اہل مذہب میں اس افسوسناک رویے کا تدارک کرنے کی شعوری کو شش نہیں کی جاتی ہمارے معاشرے میں مذہبی منافرت بڑھتی ہی جائے گی اور بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ اب نئی نسل اہل مذہب کے اس رویے کو دیکھ کر ان سے ہی نہیں بلکہ مذہب سے ہی بدگمانی کا شکار ہو رہی ہے جس سے معاشرے میں مذہب سے دوری جنم لے رہی ہے۔ لہذا وقت کا تقاضہ ہے کہ اہل مذہب اپنے اجتماعی رویوں کی اصلاح کی شعوری تحریک کا آغاز کریں ورنہ ہمارا معاشرہ میں دین سے بیزاری اور دوری کا سیلاب نعوذ باللہ سب کچھ ساتھ بہا کر لے جائے گا ۔
(جاری ہے)
ہر روحانی سلسلہ کے پیرو کاروں کے ہاں ان کے شیخ و مرشد قطب دوراں و غوث زماں ہیں اور باقی سب بس ايسے ہی ہيں ۔
اب بات تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہر مسلک کے اندر بھی تقسیم در تقسیم کا عمل ہو چکا ہے اور ہر مسلک ميں موجود مخلتف گروہ بھی ایک دوسرے کے وجود کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں اختلاف کو رحمت قرار دیا ۔ کیونکہ مثبت اختلاف علمی تحقیق کا راستہ کھولتا ہے علمی تحقیق تنوع کو جنم دیتی ہے اور تنوع انسان کی ہر لمحہ بدلتی ذندگی کی ضرورت ہے ۔ اسی تنوع کی نمو کے لئے مختلف فقہی مذاہب وجود آئے ۔ انسان کے طبیعت اور مزاج میں موجود تنوع کے پیش نظر ہی مختلف روحانی طرق تشکیل پذیر ہوئے ۔ اللہ کی طرف سے اتاری گئی آخری کتاب اور نبی اکرم صلی اللہ و علیہ و سلم کی سنت و سیرت کی مختلف دور میں مخلتف ائمہ امت نے اپنے زمانے کی ضرورتوں کے مطابق تعبیر و تشریح کی جن سے یہ مسالک و مشارب وجود میں لیکن ان سب کی مثال ان نہروں اور ندیوں کی مانند ہی تھی جو ایک ہی دریا کا پانی مخلتف کھیتوں تک پہنچاتے ہیں ۔ ایسے فرد کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے جو اپنے کھیت سے ملنے والی نہر کو دریا پر ترجیح دیتا ہو اسی طرح اپنے مسلک فقہی مذہب یا روحانی طریقہ کو دین پر ترجیح دینا بھی ایک بد بختی ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے انسان کی ، بھلائی کے لئے ہی سہی، وضح کردہ شے کو اللہ کی وضح کی ہوئی شے پر ترجیح دینا ۔ نعوذباللہ من ذلک۔
ہمارے مسالک انسانوں کے وضح کر دہ ہیں، ہماری جماعتیں انسانوں کی بنائی ہوئی ہیں، ہمارے مدارس انسانوں کے قائم کئے ہوئے ہیں، ہماری خانقاہین انسانوں کی آباد کی ہوئی ہیں، ہماری تحریکیں انسانوں کی چلائی ہوئی ہیں، یہ سب کے سب خدمت دین کے راستے اور طریقے تو ہو سکتے ہیں لیکن عین دین نہیں یہ سب دین کے تابع رہنے چاھئے ان کو دین پر ترجیح نہیں دینا چاھئے۔
اب اس بات پر ہو کوئی یہ ہی جواب دے گا کہ ہم اپنے مسلک طریقے جماعت یا مشرب کو دین پر ترجیح نہیں دیتے ۔ تو عرض ہے کہ یہ کہنے کی بات نہیں سوچ و فکر کی بات ہے ۔خوبصورت الفاظ سے اپنی تقریر و تحریر کو مزین کرنا آسان ہے لیکن اپنے عمل و کردار اور مزاج و طبیعت کو اپنے الفاظ کے تابع کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ اگر ہم اپنی خدمت دین کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں اور دوسروں کی خدمت دین سے کیڑے نکالتے ہیں ، ہم اپنے مسلک کو حق پر اور باقی سب کو گمراہ سمجھتے ہیں، ہم اپنے طریقہ کو کامل و اکمل اور باقی سب طرق کو ناقص و کمتر گردانتے ہیں، ہمارے نزدیک ہم جو کررہے ہیں وہ تو عین دین ہے جبکہ باقی سب فروعی اور غیر اہم کام ہیں ۔ ہم ہی اللہ کے چنیدہ لوگ ہیں اور باقی سب سطحی مسلمان ، جو ہم میں شامل ہو گیا وہ عرش الہی کے سائے میں آ گیا اور جو ہم سے نہ جڑا وہ روندہ درگاہ، جو ہماری تعریف کرے وہ قابل تعریف اور جو ہم پر تنقید کرے وہ قابل نفرت، جو ہمارا مکمل تابع رہے وہ اللہ و رسول کا تابع اور جو ہم پر سوال اٹھائے وہ مردود اور شیطان کا پیرو کار ۔۔۔ تو پھر یقین کریں کہ ہمیں اپنا جائزہ لینا چاھیئے کہ کہیں ہم اپنے مسلک و مشرب اور گروہ و جماعت کو دین اور امت پر ترجیح دینے کے ظلم کا ارتکاب تو نہیں کر رہے؟
جب تک ہمارے اہل مذہب میں اس افسوسناک رویے کا تدارک کرنے کی شعوری کو شش نہیں کی جاتی ہمارے معاشرے میں مذہبی منافرت بڑھتی ہی جائے گی اور بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ اب نئی نسل اہل مذہب کے اس رویے کو دیکھ کر ان سے ہی نہیں بلکہ مذہب سے ہی بدگمانی کا شکار ہو رہی ہے جس سے معاشرے میں مذہب سے دوری جنم لے رہی ہے۔ لہذا وقت کا تقاضہ ہے کہ اہل مذہب اپنے اجتماعی رویوں کی اصلاح کی شعوری تحریک کا آغاز کریں ورنہ ہمارا معاشرہ میں دین سے بیزاری اور دوری کا سیلاب نعوذ باللہ سب کچھ ساتھ بہا کر لے جائے گا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.