سول سپریمیسی اور فوجی جنتا

بدھ 29 اپریل 2020

Raheeq Ahmad Abbasi

رحیق احمد عباسی

جنرل  عاصم سلیم باجوہ کے  مشیر وزیر اعظم برائے اطلاعات بننے کی دیر تھی کہ ملک میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی  ۔ کہیں مونچھوں کےاستعارے کے ذریعے اپنے غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے تو کہیں بوٹوں کے اشارے کے اظہار غم ۔  کوئی کہتا ہے کہ  ٹیم کی کارکردگی سے مایوس ہو کر امپائر خود ہی میدان میں اتر آیا ہے تو کوئی بولتا ہے کہ اس سے تو بہتر تھا مارشل لاء ہی لگا دیتے۔

  ایک صاحب نے تو پاکستان کے مختلف اداروں  تعنیات میں ریٹائرڈ فوجی حضرات کی لمبی لسٹ شائع کر کے یہ ثابت کردیا  ہے  کہ پاکستان کا ہر سرکاری شعبہ اس وقت حاضر سروس یا ریٹائرڈ   فوجی اشرافیہ کے قبضے میں ہے ۔ فوجی افسران پاکستان کی اشرفیہ کا ایک حصہ ہیں لیکن فوجی  اشرافیہ اور سیاسی ، صحافتی ، دفتری یعنی بیوروکریٹک مذہبی اور عدالتی اشرافیہ میں ایک فرق ہے جواکثر لوگ بھول جاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

پاکستان کی تمام اشرافیہ کی کلاس میں شامل ہونے کا نظام یا موروثی ہے یا سفارشی یا  سازش سے برقرار ہے یا کرپشن اور بدعنوانی پر قائم۔
فوجی اشرافیہ میں بھی شامل ہونے کا ایک نظام ہے  ہر سال کمیشن کے لئے پاکستان بھر سے ذہین ترین  لاکھوں نوجوان اپلائی کرتے ہیں میرٹ پر صلاحیت اور قابلیت کوجانچنے کا ایک ایسا نظام ہے جس کے اوپر کوئی بھی انگلی نہیں اٹھاتا۔

ان لاکھوں میں سے چند سو نوجوانوں کو سلیکٹ کیا جاتا ہے ۔ اور ان کو ایک ایسے تربیتی نظام سے گزارا جاتا ہے جس میں کسی کے لئے کوئی رعایت نہیں  ہوتی۔
ایک گاؤں کے غریب مزدور یا  کسان کا بیٹا  اور کسی ریٹائرڈ یا حاضرسروس جرنل کے بیٹے میں کوئی تمیز باقی نہیں رہتی۔ اس کے بعد سیکنڈ لیفٹنٹ سے لےکرلیفٹینٹ  جنرل تک تقرری کا ایک ایسا نظام ہے جس میں کہیں سفارش یا  رشوت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔

اس ادارے میں کرپشن اور بدعنوانی کے امکانات کو بلکل رد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس ادارے میں بھی انسان ہی کام کرتے ہیں ۔لیکن باقی ملک کی نسبت یہاں  رشوت اور بدعنوانی شاید آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بہت سارے سرکاری  عہدے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ہر بڑے غیر سرکاری ادارے میں ، ہر این جی او  میں ، ہر بڑے کاروباری ادارے میں ، ہر بڑی کمپنی میں ، یہاں تک کے گورنمنٹ یا پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیز میں  الغرض آپ جو بھی کامیاب اداراہ ہے وہاں جائیں اور دیکھیں  تو آپ کو وہاں انتظامی پوسٹوں پر کوئی نہ کوئی ریٹائرڈ فوجی نظر آئے گا۔


اس کی وجہ کیا ہے تمام سولین اپنے ادراوں کو چلانے کے لئے فوجیوں پر اعتبار کرتے ہیں ۔ کاروباری حضرات اپنے ادارے میں نظم و نسق کے لئے کسی ریٹائرڈ فوجی کی تلاش میں رہتے ہیں ؟   اس کی وجہ یہ ہے کہ جو چیز ریٹائرڈ فوجیوں میں ملتی ہے وہ باقی لوگوں میں نہیں ملتی ۔ ریٹائرڈ فوجی جہاں کام کرتے ہیں وہاں وفاداری سے کام کرتے ہیں  کیونکہ وفاداری ان کی تربیت کا حصہ ہوتی ہے ۔

ڈسپلن ، وقت کی پابندی، نظم کے تحت کام کرنا  ، امور کی انجام دہی کے  لئےنظام کی تشکیل  اور ایس او پیز بنانا ان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہوتی ہے ۔ ان کے اندراحتساب کا ایک نظر یہ  موجود ہوتا ہے جوابدہی کا ایک نظام کے وہ عادی ہوتے ہیں  ایک کلچر ہوتا ہے جس میں ہر کوئی اپنی موفضہ امور کے لئے ذمہ دار ہوتا ہے اور اسی کے لئے جواب دہ ہوتا ہے ۔
میں خود ایک سویلین ہوں  اور میرے والد اور میرے آباء و اجداد  میں سے  کوئی کبھی  فوجی نہیں رہا  اور میرے بچوں کو میں بھی  فوج میں جانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔

میں خود سویلین بالادستی کا قائل ہوں ۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے ایک ادارے  ملٹری اکیڈمی کاکول سے ہر سال فارغ ہونے والے چند سو فوجیوں نے پورے ملک کو اپنے قبضے میں کیسے لے لیا ہے ۔اس میں اور  پاکستان کے دیگر تعلیمی اداروں میں کیا فرق ہے۔بہت سے فرق ہوں گے لیکن ان میں سے چند فرق یہ ہیں کے کاکول اکیڈمی کبھی بھی سیاسی لوگوں کے زیر اثر نہیں رہی اس پر کبھی کسی جاگیر داریا سرمایہ دار کا قبضہ نہیں رہا۔

اس پر کبھی کسی مذہبی ناخدا کی دسترس نہیں رہی لٰہذا یہ اداراہ ہر طرح کی کرپشن ہر طرح کے  سفارش کے کلچر اور عمومی اقربا پروری سے پاک سمجھا جاتا ہے اور یہاں سے ایسے نوجون نکلتے ہیں کہ جن کی تربیت ایک ایسے نظام کے تحت ہوتئ ہے کہ جو ان کو کندن بنا دیتی ہے ۔ پاکستان میں سول سروس ایک واحد ادارہ ہے جہاں مقابلے کے امتحان کے تحت لوگوں کی سلیکشن ہوتی ہے لیکن سلیکشن اور تربیتی مراحل سے گزرنے کے بعد جب ان کی تقرری ہوتی ہے  تو ان ا فسران کی سروس  عمر بھر سیاسی ، مذہبی، اشرفیہ اور جاگیر داروں ، صحافیوں اور ججوں کو خوش کرنے میں گزر جاتی ہے اگر وہ ان کو خوش نہ رکھیں تو ان کا تبادلہ وہاں کردیا جاتا ہے جہاں جانا ہر کوئی موت کے مترادف سمجھتا ہے لہٰذا سول سروس کے افسران عمر بھر ایسی سویلین اشرافیہ کے زیر اثر رہتے ہیں کہ ان میں وہ انفرادیت قائم نہیں رہتی۔

  دن رات کرپشن اقربا پروری اور سفارس کے ذریعہ بنتے بنتے جب یہ افسر پروموٹ ہوتے ہوتے خود اشرافیہ میں شامل ہوتے  ہیں تو یہ عناصر ان کے لئے معمول بن چکے ہوتے ہیں  ۔لہٰذا فوج کے اوپر اپنے غم و غصے کہ اظہار کے بجائے کاش سویلین بالادستی کا خواب دیکھنے والے ستر سالوں میں ملٹری اکیڈمی کاکول جیسا ایک ہی سول  ادارہ قائم کر لیتے   جہاں سلیکشن سے لے کر گریجوئیشن تک اور پھر تقرری سے لے کر ترقی تک ہر کام صرف اور صرف میرٹ پر ہوتا اگر ایسا  کر لیا جاتا تو آج ہر اہم سرکاری اور غیر سرکاری پوسٹ پر بیٹھا ایک فوجی ہم سب منہ نہ چڑا رہا ہوتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :