جمہوریت، محض ایک دھوکہ

جمعرات 16 ستمبر 2021

Raja Hamza Yasin

راجہ حمزہ یسین

اپنی تحریر کا آغاز کرنے سے پہلے معزز قارئین کرام معذرت خواہ ہوں کیونکہ میری اس تنقید کا مقصد جہموریت سے دشمنی نہیں بلکہ عوام دوستی اور مفاد عامہ کے لیے ہے کیونکہ جہموریت کی بنیاد عوام ہوتی ہے۔ کیا اس نام نہاد جمہوریت سے عام عوام کی زندگی میں آج تک کوئی با معنی تبدیلی آئی ہے؟ جمہوریت اس صدی میں مغرب کی جانب سے عوام کو دیا گیا سب سے بڑا دھوکہ ہے۔

دنیا کی تاریخ میں بڑے بڑے دھوکے باز آئے اور سادہ لوح انسانوں کو دھوکے دیتے رہے لیکن انسانی تاریخ میں سب سے بڑا دھوکہ جو عوام کو دیا گیا اس کا نام جمہوریت ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں جہاں عوام باشعور ہیں اس دھوکے کو سمجھنے لگے ہیں اور ان کا شکارکرنا اشرافیہ کے لیے آسان نہیں رہا۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ کہ پسماندہ ملکوں میں یہ فراڈی کھلے عام عوام کو بے وقوف بنا کر ان کا سیاسی اور معاشی استحصال کر رہے ہیں، جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔

(جاری ہے)


جمہوریت کو اکثریت کی حکومت کہا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں، دیہی علاقوں کی آبادی کا 60 فیصد حصہ کسان ہیں، عام غریب طبقات کی تعداد مزدوروں کسانوں سے زیادہ ہے یعنی ہماری کل آبادی کا اسی فیصد سے زیادہ حصہ غریب طبقات پر مشتمل ہے۔ کیا ہماری جمہوریت میں اس 80 فیصد سے زیادہ عوام کی کوئی نمائندگی ہے؟
یہ ایسا سوال ہے جس پر ان نام نہاد اور اشرافیہ کے ہم نوا طبقے کو ٹھنڈے دماغ سے غورکرنا چاہیے کہ وہ جس جمہوریت پر نثار ہوتے ہیں، کیا اس جمہوریت میں عوام کا کوئی حصہ ہے؟  دن کے اجالوں میں عوام کو اتنا بڑا دھوکہ دیا جا رہا ہے ہمارے دانشور، ہمارے مفکر اور ہمارے صحافی حضرات منہ اور آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔


جمہوریت کی تعریف سے عام طور پر ان لوگوں کی زبان خشک ہو جاتی ہے جو جمہوریت کا پھل کھا کر سرخ و سفید ہو جاتے ہیں، اگر جمہوریت کے حامیوں کو جمہوریت کا چہرہ دیکھنا ہو تو غریبوں کی مضافاتی بستیوں میں جاؤ ۔ بڑے بڑے خوبصورت ہالوں میں پوری قوت لگا کر جمہوریت کی شان میں قصیدہ خوانی کرنے والے اگر غریبوں، ناداروں، مزدوروں اور کسانوں کی بستیوں میں جائیں گے تو شرم سے ان کی گردنیں جھک جائیں گی۔

یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس طبقاتی نظام جمہوریت میں لاکھوں انسان جہاں بھوک سے بے حال ہیں، گندی بستیوں میں رہتے ہیں وہیں  پوش بستیاں ہیں جہاں امیر طبقہ اور اشرافیہ رہائش پذیر ہے۔
دنیا میں جمہوریت کا فراڈ صدیوں سے چل رہا ہے لیکن بد قسمتی سے ہماری آزادی کے بعد بھی جو تبدیلی آئی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ انگریز کی جگہ دیسی فراڈیوں نے لے لی۔

اس تبدیلی کو جمہوریت کا نام دینامحض ایک دھوکے اور فراڈ کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہمارے جمہوری دانشور جو جمہوریت کے صدقے واری ہوتے رہتے ہیں کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ 73 سال میں عام عوام اور غریب طبقات کے شب و روز میں کیا بہتری آئی؟ جو کپڑا پہلے غریب پہنتا تھا وہی آج بھی پہن رہا ہے اور جو روکھا سوکھا وہ پہلے کھاتا تھا آج بھی وہی کھا رہا ہے۔ جمہوریت نے غریب عوام کو کیا دیا؟ کسی جمہوری دانشورکے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟ جمہوریت نام کا دھوکہ اور کرپشن مغربی جمہوریت کی سوغات ہیں۔

کیا عام اور غریب عوام ان ’’نعمتوں‘‘ سے مستفید ہو سکتے ہیں؟
اس دھوکہ جمہوریت کے چیمپئن جمہوریت کی سب سے بڑی نعمت آزادی تحریر،آزادی تقریر بتاتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں بائیس کروڑ عوام ہیں وہ ہماری جمہوریت کی بخشی ہوئی آزادی تحریر، آزادی تقریر کا کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ ابھی ہمارے ملک کے دو صوبوں میں جاگیردارانہ نظام ہے۔

اس نظام میں زندہ رہنے والوں اور غلام داری نظام میں رہنے والوں میں کتنا معنوی فرق ہے ہمارے جمہوری دانشور بتا سکتے ہیں۔
اس نظام نے غریبوں کے بچوں کے ساتھ جو سب سے بڑا ظلم کیا ہے وہ ہے ان کی تعلیم سے محرومی ہے۔ تعلیم ہر ملک و قوم میں ترقی کا زینہ ہے غریب کے 98 فیصد بچے تعلیم سے محروم کر دیے گئے ہیں چونکہ ماں باپ غریب طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔

ماں باپ کی کمائی سے خاندان کا گزارا نہیں ہوتا، اس لیے اس بدبودار اور بوسیدہ نظام نے معصوم بچوں کو ورغلانے، غریب ماں باپ کو مجبور کرنے کے لیے چائلڈ لیبرکا ظالمانہ نظام قائم کیا جس میں بھوک سے مجبور ماں باپ خود اپنے چھوٹے بچوں کو کام پر لگا کر آتے ہیں یوں بچوں کی محنت سے حاصل ہونے والی کمائی خاندان کی بھوک کا مداوا بن جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف غریب کے بچے ہی کیوں چائلڈ لیبر کرتے ہیں۔

یہ اسکول کیوں نہیں جاتے؟ ان کے لیے اس نام نہاد جمہوری حکومت کی طرف سے کوئی مثبت قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا؟
چائلڈ لیبر کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صرف باپ کی کمائی سے انکے خاندان کا گزارا نہیں ہوسکتا۔ اس کے برعکس امیروں کی اولاد کو تعلیم سے لے کر کنوینس تک ہر قسم کی سہولت موجود ہے یہ ہے وہ جمہوریت جس میں غریب کے بچے چائلڈ لیبر کرتے ہیں اور رات دن محنت کر کے اپنے غریب خاندان کا سہارا بنتے ہیں۔

کہاں ہیں وہ اس فراڈ اور دھوکہ جمہوریت کے حامی جو آزادی تحریر، آزادی تقریر پر سبحان اللہ کے ڈونگرے برساتے ہیں اور جمہوریت کے عطا کردہ چائلڈ لیبر انجوائے کرتے ہیں۔ اب جہموریت کے نام پر اس دھوکہ دہی کا خاتمہ ہونا چاہیے اور حقیقی معنوں میں عوامی جمہوریت کا آغاز ہونا چاہیئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :