عدم برداشت، معاشرے کا ایک بنیادی مسئلہ

اتوار 11 اکتوبر 2020

Raja Hamza Yasin

راجہ حمزہ یسین

موجودہ دور میں اخلاقی اقدار بالکل خاتمے کی طرف جا رہی ہیں اور ہمارےاندر عدم برداشت کا عنصر روزبروز عیاں ہوتا جا رہا ہے- آج کے اس ترقی یافتہ دور میں اگرچہ انسان نے اپنے جسم وجان کی خواہشات ومطالبات کی تکمیل کا سارا سامان مہیا کر لیا ہے- یہاں تک کے زمین و آسمان کو مسخر کر لیا ہےاور ستاروں پر کمندیں ڈال دی ہیں لیکن انسان اپنے اندر کی بے حمیت پر قابو نہیں پا سکا ہے- ہمارے سماجی رویے ہمارے لیے وبال جان بن چکے ہیں- رواداری,اخلاص,برداشت,صبر,مساوات,عفوودرگزراور عدل و انصاف جیسی صفات جو معاشرے کی فلاح اور خیر کی ضامن ہیں,بالکل ہی ختم ہوتی جا رہی ہیں-اقوام ہوں یا افراد طاقت بنیادی اصول بن چکا ہے-کمزوروں کے خلاف طاقت کی وہی ذبان استعمال کی جارہی ہےجو کبھی جاہلیت کا طرہ امتیاز تھی-انسانی معاشروں میں عدم برداشت کا رحجان فروغ پا رہا ہےجو ہمارے سماجی مسائل کا ایک بنیادی سبب ہے-
برداشت سے انسان کے اندرقوت پیدا ہوتی ہےجس کے سبب وہ جوش, اشتعال اور انتقام کے جذبے کے باوجودعفوودرگزر سے کام لیتا ہےاور اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے جبکہ عدم برداشت ایک منفی سوچ اور رویہ ہے جس کے باعث ہم کسی کی سوچ , رائے یا نقطہ نظر سے متفق نہیں ہوتے اور فکر و نظر کے اس اختلاف کو برداشت نہیں کر پاتے اور آگے سے نامناسب ردعمل کا اظہار کرتے ہیں- عفوودرگزر سے کام لینا کمزوری یا بزدلی نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے رحمت کا اظہار ہے- اللہ تعالی نے اپنے محبوب بندوں کی ایک صفت یہ بھی بیان فرماہی ہے:  "اور وہ اپنے غصے کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں"-(القرآن)
معاشرے کی عمارت اخلاقیات, برداشت اور محبت کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے- جب یہ خصوصیات سماج سے رخصت ہو جاہیں تو وہ تیزی سے تباہی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے  جس معاشرے میں رواداری ,صبروتحمل اور ایک دوسرےکو برداشت کرنے جیسی خوبیوں کی کمی ہوتی ہے وہاں بے چینی ،غصہ ،تشدد اور بہت سی دیگر برائیاں جڑ پکڑ لیتی ہیں اور ان خوبیوں کے موجود ہونے سے معاشرے میں امن و چین کا دور دورہ ہوتا ہے-    عدم برداشت کا رجحان سرعت سے ہی فروغ پا رہا ہے- لوگوں میں ذرا بھی برداشت نہیں اور محض چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی تشدد سے گریز نہیں کرتے- معاشرے میں جدھر بھی نگاہ دوڑائیں ہر فرد خود غرضی اور نفسا نفسی میں مبتلا نظر آ تا ہے - یہ خود غرضی اور نفسا نفسی معاشرے کی اجتماعی روح کے خلاف ہے اور اسے گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے- لگتا ہے قوت برداشت اور رواداری جیسی اعلیٰ صفات معاشرے سے کھو چکی ہیں - عدم برداشت ہمارے معاشرے کے بیشتر مسائل کی جڑ ہے- آ ج اگر کوئی ہمیں ایک  بات سناتا ہے تو ہم اسے جواب میں چار باتیں سناتے ہیں- اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دینے کو ہم اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں- ذرا سی بات پر ہوش وحواس سے بیگانہ ہو کر مرنے اور مارنے پر اتر آ تے ہیں- معاشرے میں نمود و نمائش ،فیشن پرستی،رشوت خوری،سفارش اور نشہ آور اشیاء کا کھلے عام  استعمال اور ایسے دوسرے کئی پہلو اس بات کی کھلی دلیل ہیں کہ ہماری اخلاقی اور سماجی اقدار نہ صرف بدل گئی ہیں بلکہ مذہبی اقدار کا بھی دیوالیہ نکل چکا ہے- ماضی قریب میں جو باتیں ہنسی مذاق میں اڑائی جاتی تھیں آ ج دلوں کو تکلیف دینے کا سبب بن رہی ہیں- سڑکوں میں ٹریفک سے لے کر ہسپتالوں میں مریضوں کی صورتحال تک ہر جگہ نفسانفسی کا عالم نظر آ تا ہے- ٹریفک سگنل پر کھڑا ہر شخص دوسرے سے جلدی میں دکھائی دیتا ہے اور اس کوشش میں ہوتا ہے کہ کب سگنل کھلے اور  سب پہلے نکل جائےاسکو کسی دوسرے بھائی کی کسی مجبوری کی پرواہ نہیں ھوتی - بدقسمتی سے، ہمارا چال چلن سب کچھ بالکل بدل چکا ہے اور بات کو ختم کرنے کے بجائے بڑھا دیا جاتا ہے - معافی مانگنے اور معاف کرنے کے بجائے بدلے کو ترجیح دی جاتی ہے ،جو ہمارے معاشرے میں نت نئے مسائل اور لڑائی جھگڑے پیدا کرتا ہے- انسان کی اصل طاقت کا اندازہ اس کی قوت برداشت سے ہی ہوتا ہے- جس شخص میں تکالیف اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے وہ دنیامیں بڑی قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آ تا ہے- کسی بھی شخص کی بلندی اور کامیابی کا راز یہ ہے کا انتہائی جذباتی مواقع پر عقل و دانش سے فیصلہ کرے- اگر صبر وضبط سے کام نہ لیا جائے تو زندگی گزارنا بھی مشکل ہو جاتا ہے-
بلاشبہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں جس کا حل نہیں اس لحاظ سے عدم برداشت کے رجحان پر بھی قابو پانا ممکن ہے- لیکن یہ کسی ایک فرد کے کرنے سے نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے- اس کے نتیجے میں شاید سنہرا ماضی لوٹ آئے جب سماجی اقدار کا بہت خیال رکھا جاتا تھا اور لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے اور ایک دوسرے کا خیال رکھا جاتا تھا- لڑائی جھگڑوں کا تو تصور ہی نہ تھا- اس لیے اس سنہری دور کی واپسی کے لیے ہم سب کو اجتماعی طور پر مل کر برداشت کا مادہ پیدا کر لیں تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے اور کئی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے- برداشت سے ہی معاشرے کا امن و سکون لوٹ سکتا ہے- لھٰذا اخلاقی اقدار کو فروغ دیا جائے اور عدم برداشت کو ترک کر کے ایک دوسرے کا احترام کیا جائے اور انسانیت کا اور ہمدردی کا درس دیا جائے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :