زندہ انسانوں کے درمیاں رہنے والا مردوں کا ساتھی

بدھ 6 جنوری 2021

Rameen Khan

رامین خان

گورکن ایک باعزت مگر بے وقعت پیشہ ھم اپنے پیارون کو جن کے سپردکرکےبے فکر ھوجاتے ھیں کہ اللہ کے سپرد کردیا اور گورکن تو ھے ہی خیال رکھنے کیلے مگر کبھی  گورکن کی زندگی کے بارے میں سوچنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔

(جاری ہے)

قبر کی کھودائی کے چند ہزار دے کر ھم بے فکر ھو جاتے ھیں کہ اللہ  کےسپرد کردیا اور گورکن تو ہے ہی خیال رکھنے کے لئے مگر کبھی اسی گورکن کی زندگی کے بارے میں سوچنے کی کوشش بھی نہیں کرتے قبرکی کھودائی کے چند ہزاردے کر ہم بےفکر ہوجاتےہین
 جس قبرستان میں لوگ دن کے اجالے میں جانے سے کتراتے ہین وہاں راتیں گزارنا کس قدر دشوار اور لرزا دینے والا تجربہ ہوگا نا ان کی کوئی تنخواہ ہوتی ہے اور نا ہی کوئی کوئی مراعات سردی گرمی بہار خزاں ہر موسم ان کے لئے قبرستان کی وحشت کے ساتھ ہی گزارنے پڑتے ہیں حکومت کو چاہیے کہ ان کے لیے کوئی ادارہ بنایا جائے اور ان کی تنخواہیں مقرر کی جائے ان کو صحت اور دوسری مراعات کابلکل سرکاری ملازمین کی طرح دی جانی چاہیے جس طرح سے سرکاری ملازمین کو پنشن اور دوسری سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اسی طرح ان کے بچوں کےُلئے سرکاری سکولوں میں تعلیم اورسرکاری ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں گورکن کے لیے زندگی کی کوئی سہولیات نہیں ہوتیں گورکن کا بچہ قبرستان میں پیدا ہوتا ہے اود وہیں پر بڑا ہوتا ہے اور وہیں پر بڈھا ہوتا ہے ان کی ہر خوشی ہرغم قبرستان میں ہی گزارتی ہےاور وہ لوگ نا کوئی چھٹی مناسکتے ہیں اور نا کہیں جاسکتے ہیں آج کے دور میں جہاں کرونا نے ہر طرف تباہی بربادی اور دہشت مچا رکھی ہے لوگ اپنے عزیزوں پیاروں کو کرونا ہونے پر ان سے اس طرح بھاگتے ہیں کہ جسے وہ کوئی بھوت یا افریت ہوں اور ان کے قریب رہنے سے کوئی بہت بڑی آفت آجائے گی اور ان کےقرب سے کوئی بہت زیادہ بڑی آفت آجائے گی اور ان کے قرب سے کوہی بہت بڑی تعفن زدہ بدبو آتی ہو لوگ اس طرح ان سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اور مرنے کے بعد تو نہ کوئی اپنے پیارون کو غسل دیتا ہے اور نہ کوئی قبر میں اتارنے کو تیار ہوتا ہے اس وقت بھی یہی گورکن ہی کام آتے ہیں اور ان کرونا کے باعث مرے ہوئے مردوں کو بھی قبر میں اتارنے کا کام بھی ان کے ذمے ہوتا ہے اور اس کام کے لئے ان کو نا کوئی اضافی رقم ملتی ہے اور نہ کوئی مراعت اسلیے یہ گورکن زندگی کے ہر شعبے کے لوگوں سے زیادہ اہم مستحق اور قابل عزت اور قابل احترام ہوتا ہے اپنے پیارون کو قبر میں اتارا گورکن کے ذمے لگایا اور بس ہماری ذمہ داری ختم نا اپنے پیارون کی طرف سے اور نا ان کے رکھوالے کی طرف سے ہر طرف سے لاپروائی برتنا ہم پر لازم و ملزوم ہوجاتا ہےاس لیے خدارا کوشش کریں کہ حکومت کے اعلی ایوانوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ وہ اس شعبے کو بھی اہمیت دی جائے اور ان گورکنون کو بھی ذندگی کی کچھ سہولیات اور مراعات سے روشناس کروایا جا سکے اور انفرادی طور پر بھی کچھ کیا جائے تاکہ وہ لوگ بھی قبرستان کے وحشت زدہ ماحول میں بہت سارے کیڑے مکوڑے اور بہت سارے حشرات کے درمیان زندگی گزارنے کے ساتھ زندگی کی تھوڑی بہت خوشیاں حاصل کرسکیں

 انداز بیان گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات
کیونکہ ہر زیشرف کا ابدی ٹھکانہ وہ ہی قبر ہے جسکے رکھوالے کوہم ان مردوں کی طرح ہی تصور کرتے ہیں شاید ہماری سوچ ہی یی ہے کہ مردوں کے ساتھ رہتے رہتے گورکن بھی مردہ ہے اس کی ہماری طرح کی زندگی نہیں اس کی زندگی کی ضروریات ہمارے جیسی نہیں یاشاید اس کی کوئی ضروریات ہی نہیں سوچیے یہ ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ مردوں کے ساتھ رہنے والا زندہ انسان زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی بےبہرہ معاشرے کیلئے بلکل غیر ضروری اور ناکارہ کیا یہ لوگ غیر ضروری اور ناکارہ ہین یا معاشرے کے فعال لوگ
سوچیے سوچیے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :